إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
جب اللہ نے فرمایا اے عیسیٰ ! بے شک میں تجھے قبض کرنے والا ہوں اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تجھے ان لوگوں سے پاک کرنے والا ہوں جنھوں نے کفر کیا اور ان لوگوں کو جنھوں نے تیری پیروی کی، قیامت کے دن تک ان لوگوں کے اوپر کرنے والا ہوں جنھوں نے کفر کیا، پھر میری ہی طرف تمھارا لوٹ کر آنا ہے تو میں تمھارے درمیان اس چیز کے بارے میں فیصلہ کروں گا جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔
47۔ جب بنی اسرائیل کے کافروں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کی سازش مکمل کرلی، اور اس کی تمام کڑیاں ایک دوسرے سے ملا لیں، تو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اے عیسی، میں تمہیں پورے طور پر لے لینے والا ہوں اور اپنے پاس اٹھا کر لانے والا ہوں، اور آسمان پر بلا کر کافروں کی خباثت آلود فضا سے تمہیں دور کرنے والا ہوں، اور تمہاری اتباع کرنے والوں کو کافروں پر قیامت کے دن تک فوقیت دینے والا ہوں۔ کلمہ متوفیک کی تفسیر میں علماء کے کئی اقوال ہیں۔ قتادہ وغیرہ کا قول ہے کہ آیت میں تقدیم و تاخیر ہے۔ اس اعتبار سے معنی یہ ہوگا کہ میں تمہیں ابھی زندہ اٹھالوں گا، پھر قبل از قیامت دنیا میں بلا کر طبیعی موت دوں گا۔ ایک دوسرا قول یہ ہے کہ میں تمہیں دنیا سے بغیر موت پورے طور پر لے لینے والا ہوں، ابن جریج کہتے ہیں کہ توفی اور رفع دونوں یہاں پر مترادف ہیں، یعنی میں تمہیں پورے طور پر اٹھا لینے والا ہوں اکثر و بیشتر مفسرین نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ اس لیے کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے قریب آسمان سے دنیا میں دوبارہ آئیں گے، دجال اور خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو توڑیں گے، اور نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اتباع کریں گے اور یہ جو فرمایا ہے کہ میں تمہارے پیروکاروں کو کافروں پر قیامت تک کے لیے فوقیت دینے والا ہوں تو اس سے مراد مؤمنین بنی اسرائیل کی وہ جماعت ہے جو ان پر ایمان لائی تھی، اور کافروں کے مقابلے میں ان کی مدد کا اعلان کیا تھا اور نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی امت کے دنیا میں آجانے کے بعد یہی لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے صحیح پیرو کار ہوئے، اس لیے اللہ نے کفار کے مقابلے میں ان کی مدد کی، اور ان کے دین کو تمام ادیان پر غالب کیا، اور بفضل باری تعالیٰ قیامت تک اسلام اور مسلمان اسی حال میں رہیں گے۔ ایک دوسرا قول یہ ہے کہ نصاری جو عیسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والے ہیں یہودیوں پر ہمیشہ غالب رہیں گے۔ اس قول کے مطابق آیت میں کافروں سے مراد یہود ہیں ایک اور قول ہے کہ اہل روم اپنے مخالف کافروں پر ہمیشہ غالب رہیں گے۔ ایک چوتھا قول ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری لوگ کافروں پر غالب رہیں گے۔ اگر ان اقوال کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ مسلمان عیسائیوں پر غالب نہیں آئیں گے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات سے یہ بات ثابت ہے کہ امت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ دیگر تمام اہل ادیان پر غلبہ دے گا، بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے قریب آسمان سے اتریں گے، صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ قبول نہیں کریں گے، ان کے نزدیک یا تو اسلام ہوگا یا نہیں تو قتل، وہ شریعت اسلامیہ کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں گے، اور مسلمان ہی ان کے مددگار اور پیروکار ہوں گے، اور بہت ممکن ہے کہ اس آیت کریمہ میں اسی کی طرف اشارہ ہو۔ آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان کے اوپر ہے۔ قرآن کریم کی دیگر کئی آیتوں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے اور یہی مذہب سلف ہے۔ حافظ ذہبی نے اپنی کتاب العلو للعلی الغفار اور ابن رشد نے اپنی کتاب مناھج الادلۃ میں اسی مذہب سلف کو ترجیح دیا ہے، اور متاخرین اشاعرہ اور معتزلہ وغیرہ کی تردید کی ہے۔