وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
اور جو کوئی سودی قرض تم اس لیے دیتے ہو کہ لوگوں کے اموال میں بڑھ جائے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا اور جو کچھ تم زکوٰۃ سے دیتے ہو، اللہ کے چہرے کا ارادہ کرتے ہو، تو وہی لوگ کئی گنا بڑھانے والے ہیں۔
(25) ابن عباس (رض)، عکرمہ، مجاہد، ضحاک اور قتادہ وغیرہم نے اس آیت کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو اس نیت سے ہدیہ دیتا ہے کہ وہ اس کے بدلے میں اس سے بہتر کوئی چیز دے، تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسے اس کا کوئی ثواب نہیں ملے گا، لیکن دنیاوی طور پر اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہے۔ ابن عباس اور عکرمہ کہتے ہیں کہ ربا کی دو قسمیں ہیں : ایک خرید و فروخت کی ربا، جو شرعاً حرام ہے اور دوسری کسی کو اس نیت سے ہدیہ دینا کہ وہ اسے اس سے بہتر بدلہ دے تو یہ جائز ہے۔ اور اگر کوئی شخص صدقہ و خیرات اللہ کی خوشنودی کے لئے کرتا ہے، تو اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اسے اس کا بدلہ کئی گنا بڑھا کردیتا ہے اور بسا اوقات وہ بڑھ کر سات سو گنا زیادہ ہوجاتا ہے، جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔