فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ
سب سے قریب زمین میں اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آئیں گے۔
﴿أَدْنَى الْأَرْضِ﴾سے مراد اس زمانے میں رومیوں کا وہ علاقہ ہے جو اہل فارس کے علاقے سےقریب تر تھا، یعنی دمشق اور بیت المقدس کا وہ علاقہ جس میں رومیوں کو شکست ہوئی، پھر دس سال کے اندر ہی حالات ایسے بدلے کہ اہل فارس شکست کھاتے چلے گئے اور رومیوں کو زبردست غلبہ حاصل ہوا۔ ﴿لِلَّهِ الْأَمْرُ﴾ یعنی رومیوں کا پہلے مغلوب ہونا اور پھر چند ہی سالوں کے بعد ان کا غالب ہونا، اللہ کے فیصلے اور اس کے قضا و قدر کے مطابق تھا۔ دونوں حال کی حکمتوں اور مصلحتوں کو صرف وہی جانتا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آل عمران آیت (140) میں فرمایا ہے : ﴿وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ﴾ ” اور ہم ان دنوں کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔ “