وَمَا هَٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ ۚ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
اور دنیا کی یہ زندگی نہیں ہے مگر ایک دل لگی اور کھیل، اور بے شک آخری گھر، یقیناً وہی اصل زندگی ہے، اگر وہ جانتے ہوتے۔
(39) اس آیت کریمہ میں دنیا کی حقارت اور اس کی بے ثباتی بیان کی گئی ہے کہ جیسے بچے کھلونوں کے گرد جمع ہوتے ہیں، چند گھڑی ان سے جی بہلاتے ہیں، پھر انہیں وہیں چھوڑ کر اپنے گھروں کو چل دیتے ہیں اور سوائے تھکن کے انہیں کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا، یہی حال اس دنیائے دنی کا ہے، یہاں کی ہر چیز فانی اور آنی جانی ہے اس کے بجائے آخرت کی زندگی ہمیشہ رہنے والی ہے وہ زندگی زوال پذیر نہیں ہوگی، جنتی کو نہ تو بیماری اور موت لاحق ہوگی اور نہ وہ کسی درود و الم سے دوچار ہوگا، جنت لازوال خوشیوں کا نام ہے، آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر مشرکین کی سمجھ میں یہ بات آجاتی تو دنیا کی اس حقیر زندگی کو آخرت کی لازوال اور بے پایاں نعمتوں اور خوشیوں پر ترجیح نہ دیتے۔