وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ ۖ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنزِلَ إِلَيْنَا وَأُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَٰهُنَا وَإِلَٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ
اور اہل کتاب سے جھگڑا نہ کرو مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہو، مگر وہ لوگ جنھوں نے ان میں سے ظلم کیا اور کہو ہم ایمان لائے اس پر جو ہماری طرف نازل کیا گیا اور تمھاری طرف نازل کیا گیا اور ہمارا معبود اور تمھارا معبود ایک ہے اور ہم اسی کے فرماں بردار ہیں۔
(26) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) اور مسلمانوں کو تعلیم دی ہے کہ آئندہ دعوتی زندگی میں جب آپ کا واسطہ اہل کتاب سے پڑے تو ان کے ساتھ بات کرتے وقت نرم اور شیریں انداز گفتگو اختیار کیجیے، تاکہ اسلام کی تعلیمات میں انہیں غو رو فکر کا موقع ملے اور اللہ توفیق دے تو ایمان لے آئیں۔ قتادہ وغیرہ نے کہا ہے کہ یہ ایٓت، قتال والی آیت کے ذریعہ منسوخ ہوچکی ہے، لیکن راجح یہی ہے کہ اس کا حکم باقی ہے اور قیامت تک ہر اس شخص کے لئے بای رہے گا جو دین اسلام کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہے گا البتہ جو یہود و نصاریٰ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کریں گے اور جزیہ دینے سے انکار کردیں گے، ان کے ساتھ طاقت کی زبان میں بات کی جائے گی اور ان سے قتال کیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ اپنا معاندانہ رویہ چھوڑ کر جزیہ دینے پر تیار ہوجائیں۔ اگر اہل کتاب ایسی خبریں بیان کریں جن کے بارے میں نہیں معلوم کہ وہ سچی ہیں یا جھوٹی، تو ایسی خبروں کی نہ تصدیق کی جائے گی اور نہ تکذیب، بلکہ انہیں مجمل سا جواب دے دیا جائے گا کہ ہم لوگ اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر بھی جو تم پر نازل کی گئی تھیں اور جو نزول قرآن کے ساتھ منسوخ ہوگئی ہیں اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کی اطاعت کرتے ہیں۔ امام بخاری نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ اہل کتاب عبرانی زبان میں لکھی ہوئی تورات پڑھ کر مسلمانوں کے لئے اس کی تشریح عربی میں کرتے تھے، تو رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ ان کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب اور کہو کے ہم اس کتاب پر ایمان لے آئے جو ہم پر نازل ہوئی ہے اور ان پر بھی جو تم پر نازل ہوئی تھیں اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہے اور اور ہم اسی کی بندگی کرتے ہیں۔