أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ
کیا لوگوں نے گمان کیا ہے کہ وہ اسی پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ کہہ دیں ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی۔
(2) ہجرت حبشہ سے پہلے مکہ مکرمہ میں مسلمان بہت سخت حالات سے گزر رہے تھے کہ کفار مکہ نے ان کی زندگی دوبھر کر رکھی تھی اور انسانی فطرت کے تقاضے کے مطابق مصیبتوں کی تاب نہ لاکر کبھی گھبرا جاتے اور آپس میں باتیں کرتے کہ اللہ ہماری مدد کب کرے گا ان مصیبتوں کا دور کب ختم ہوگا۔ امام بخاری نے خباب بن الارت سے روایت کیا ہے کہ پریشانوں کی تاب نہ لاکر ایک بار وہ یہی سوال رسول اللہ سے کربیٹھے جب آپ خانہ کعبہ کی دیوار کے سائے میں ٹیک لگائے تشریف فرماتے تھے تو آپ نے ان سے کہا کہ تم سے پہلے دوسری امتوں کے مومنوں کو اس سے زیادہ تکلیفیں دی گئیں انہیں آرے سے چیرا گیا لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت اتار لیے گئے لیکن وہ اپنے دین سے نہیں پھرے پھر آپ نے قسم کھاکر فرمایا، دین اسلام ہی غالب ہوکررہے گا یہاں تک کہ ایک مسافر صنعا سے حضرت موت جائے گا اور اللہ کے سوا اسے کسی کا خوف نہیں ہوگا لیکن تم لوگ جلدی کررہے ہو، اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں مکہ میں انہیں مسلمانوں سے کہا ہے کہ اگر تم مسلمان ہو تو تمہاری آزمائش ہوگی اور تمہیں صبر وثبات کے ساتھ ان سے گذر کر اپنی قوت ایمانی کا ثبوت دینا ہوگا اللہ کا ہمیشہ سے اپنے مومن بندوں کے ساتھ یہی دستور رہا ہے کہ انہیں آزماتا ہے تاکہ عملی طور پر ثابت ہوجائے کہ ان میں کون صادق الایمان اور کون جھوٹا اور منافق ہے، اس معنی ومفہوم کی قرآن کریم میں متعدد آیتیں آئی ہیں، سورۃ آل عمران آیت 142 میں آیا ہے ﴿أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ﴾ کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤگے حالانکہ اب تک اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو جانا ہی نہیں جنہوں نے جہاد کیا اور جنہوں نے صبر سے کام لیا، اور سورۃ البقرہ آیت 214 میں آیا ہے ﴿أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ﴾ کیا تم سمجھتے ہو کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ تم پر وہ حالات نہیں گزرے جو تم سے پہلے والے لوگوں کو پیش آئے انہیں سختیاں اور تکلیفیں لاحق ہوئیں اور اس طرح جھنجوڑ دیے گئے کہ اللہ کے رسول اور مومنین پکار اٹھے، کہ اللہ کی مدد کب آئے گی آگاہ رہو کہ اللہ کی مدد قریب ہے۔