وَلَٰكِنَّا أَنشَأْنَا قُرُونًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۚ وَمَا كُنتَ ثَاوِيًا فِي أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَلَٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ
اور لیکن ہم نے کئی نسلیں پیدا کیں، پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی اور نہ تو اہل مدین میں رہنے والا تھا کہ ان کے سامنے ہماری آیات پڑھتا ہو اور لیکن ہم ہی بھیجنے والے ہیں۔
موسیٰ کے بعد بہت سی قومیں پیدا ہوئیں اس طویل مدت میں وحی الہی کاسلسلہ منقطع رہالوگ اللہ سے کیے گے عہد کو بھول گئے اور راہ ہدایت کے آثار مٹ گئے اور گمراہی عام ہوگئی تو بنی نوع انسان پر اللہ کی رحمت کا تقاضا ہوا کہ آپ کو نبی بنا کربھیجا جائے تاکہ انہیں کفر وشرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان ویقین کی راہ دکھائیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا مدین جانا وہاں دس سال تک قیام کرنا اور شعیب کی بیٹی سے ان کی شادی، یہ سارے واقعات جب رو نما ہوئے اس وقت رسول اللہ وہاں موجود نہیں تھے پھر یہ باتیں انہیں کیسے معلوم ہوئیں، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان واقعات سے متعلق آیتیں نازل کیں، جن کے ذریعہ سے آپ کو ان کا علم ہوا، اگر آپ نبی نہ ہوتے تو یہ باتیں معلوم نہیں ہوتیں، کوہ طور کے پاس جب اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) سے ہم کلام ہوا اور انہیں ان کے نبی مرسل ہونے کی خبر دی اور حکم دیا کہ وہ اپنے بھائی ہارون کے ساتھ فرعون کے پاس توحید کا پیغام لے کرجائیں اس وقت رسول اللہ وہاں موجود نہ تھے اگر وہ نبی نہ ہوتے تو یہ باتیں انہیں کیسے معلوم ہوتیں۔