أَمَّن جَعَلَ الْأَرْضَ قَرَارًا وَجَعَلَ خِلَالَهَا أَنْهَارًا وَجَعَلَ لَهَا رَوَاسِيَ وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
(کیا وہ شریک بہتر ہیں) یا وہ جس نے زمین کو ٹھہرنے کی جگہ بنایا اور اس کے درمیان نہریں بنائیں اور اس کے لیے پہاڑ بنائے اور دو سمندروں کے درمیان رکاوٹ بنادی؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور) معبود ہے؟ بلکہ ان کے اکثر نہیں جانتے۔
دوسرا سوال یہ کیا کہ اس زمین کو تمہارے لیے قرار کی جگہ کس نے بنائی ہے کہ وہ الٹتی نہیں ہے اور تم آرام سے اس پر زندگی گزارتے ہو اور زمین پر نہریں کس نے جاری کی ہیں اور اس پر پہاڑ کس نے جما دیئے تاکہ حرکت نہ کرے، اور میٹھے اور کھارے پانی کے درمیان رکاوٹ کس نے کھڑی کی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے نہیں ملتے ہیں (سورہ الفرقان میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے) اس کے سوا تمہارے پاس کوئی جواب نہیں کہ یہ سب اللہ کی قدرت کے کرشمے ہیں، تو پھر تم کیوں اس کے سوا کسی اور کو اپنا معبود بناتے ہو؟ تیسرا سوال یہ کیا کہ جب انسان کو کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے کسی مرض میں مبتلا ہوتا ہے یا کسی مصیبت میں گرفتار ہوجاتا ہے یا کسی ظالم کے ہتھے چڑھ جاتا ہے تو وہ بے تحاشا کسے پکارتا ہے اور کون ہے جو اس کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کردیتا ہے؟ اور کون ہے جو کچھ کو موت دیتا رہتا ہے اور ان کی نسلوں کو زمین کا وارث بناتا رہتا ہے؟ جواب معلوم ہے کہ وہ اللہ ہے۔ تو اے مشرکین مکہ ! پھر کیوں تم اسے چھوڑ کر معبودان باطل کے سامنے سربسجود ہوتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔ مضطر کی دعا کی مناسبت سے حافظ ابن القیم نے اپنی کتاب الجواب الکافی میں لکھا ہے کہ اگر دعا کرتے وقت پورے طور پر حضور قلب حاصل ہو، اپنی حاجت و ضرورت کا شدید احساس ہو اور رب العالمین کے حضور انتہائی عاجزی و انکساری اور غایت درجہ کا خشوع و خضوع حاصل ہو اور دل پر رقت طاری ہو اور اس حال میں بندہ اپنے رب کے پاکیزہ ناموں اور اعلی صفات کو وسیلہ بنا کر دعا کرے تو ایسی دعا شاید ہی رد کی جاتی ہے۔ چوتھا الزامی سوال اللہ نے مشرکین سے یہ کیا کہ صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے، اور کون بارش برسانے سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے، جن سے لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ اب بارش ہوگی، کون ان باتوں پر قادر ہے؟ جواب معلوم ہے کہ وہ اللہ ہے تو پھر کیوں تم لوگ اس کے ساتھ غیروں کو شریک بناتے ہو، اللہ تمہارے ان جھوٹے معبودوں سے بہت ہی برتر و بالا ہے۔ پانچواں سوال یہ کیا کہ وہ کون ہے جس نے انسانوں کو پہلی بار پیدا کیا ہے اور قیامت سے پہلے پھر سے انہیں دوبارہ زندہ کرے گا، اس کا جواب اس کے سوا کچھ بھی نہیں (تم چاہے مانو یا نہ مانو) کہ وہ اللہ کی ذات ہے جو انہیں دوبارہ زندہ کرے گا اور کون ہے جو آسمان سے بارش برسا کر اور زمین سے پودے اگا کر تمہیں روزی دیتا ہے؟ جواب معلوم ہے کہ وہ اللہ کی ذات ہے جو اس کی قدرت رکھتا ہے، تو پھر تم جو اس کے ساتھ غیروں کو شریک بناتے ہو اور دعوی کرتے ہو کہ تم سچے ہو تو اپنی صداقت کی کوئی عقلی یا نقلی دلیل پیش کر کے دکھاؤ۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ سے الزامی بات یہ کہی کہ غیبی امور کا علم آسمانوں اور زمین میں رہنے والی مخلوقات میں سے کسی کو نہیں ہے ان کا علم صرف اللہ کو ہے۔ جیسا کہ اللہ نے سورۃ الانعام آیت (59) میں فرمایا ہے : ﴿وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ﴾ اور اللہ ہی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں، ان کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس لیے اس کی ذات معبود برحق ہے اور تمہارے معبود چونکہ غیب کا کوئی علم نہیں رکھتے ہیں اس لیے وہ معبود نہیں ہوسکتے، کیونکہ معبود برحق کو تمام غیبی امور کا علم ہونا چاہیے تاکہ وہ دونوں جہان اور ان میں پائی جانے والی تمام کائنات کی دیکھ بھال کرسکے۔ بخاری و مسلم اور ترمذی نے عائشہ سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا جس نے یہ دعوی کیا کہ وہ لوگوں کو کل کی خبر بتاتا ہے، اس نے اللہ پر بہت بڑی افترا پردازی کی، اللہ تو کہتا ہے : ﴿قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ﴾ آسمانوں اور زمین میں رہنے والی مخلوقات میں سے کوئی بھی غیب کی باتیں نہیں جانتا، انہیں صرف اللہ جانتا ہے۔ اس الزامی بات کی ایک اہم کڑی یہ ہے کہ قیامت کب آئے گی اور قبروں سے مردے کب اٹھائے جائیں گے اس کا علم بھی اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے، جیسا کہ اللہ نے سورۃ الاعراف آیت (187) میں فرمایا ہے : ﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ﴾یہ لوگ آپ سے قیامت کے متعلق سوالات کرتے ہیں کہ وہ کب واقع ہوگی، آپ فرما دیجیے کہ اس کا علم صرف میرے رب ہی کے پاس ہے، اس کے وقت پر سوا اللہ کے اسے کوئی ظاہر نہیں کرے گا۔ اور جن معبودوں کی تم پوجا کرتے ہو انہیں تو کچھ بھی خبر نہیں کہ قیامت کب آئے گی اور کب وہ اپنے خالق کے سامنے حساب کے لیے کھڑے ہوں گے، اس لیے وہ معبود کیسے ہوسکتے ہیں، اگر وہ معبود ہوتے تو انہیں قیامت کی خبر ضرور ہوتی۔