أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَّا كَانَ لَكُمْ أَن تُنبِتُوا شَجَرَهَا ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ
(کیا وہ شریک بہتر ہیں) یا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمھارے لیے آسمان سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس کے ساتھ رونق والے باغات اگائے، تمھارے بس میں نہ تھا کہ ان کے درخت اگاتے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور) معبود ہے؟ بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو راستے سے ہٹ رہے ہیں۔
(٢٢) معبودان باطل کی عمومی نفی کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت مطلقہ کی مثالیں دے کر مشرکین مکہ سے الزامی سوال کیا ہے کہ بتاؤ یہ کس کی قدرت کا کرشمہ ہے ان چیزوں کو کس نے پیدا کیا ہے یہ نعمتیں کس نے دی ہیں؟ اور جب ہر سوال کا جواب تمہارے پاس سوائے اس کے کچھ نہیں کہ یہ سب اللہ کی کرشمہ سازی ہے تو پھر تم اسے چھوڑ کر دوسروں کو اپنا معبود کیوں بناتے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ سے پہلا الزامی سوال یہ کیا کہ ان آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے اور آسمان سے تمہارے لیے بارش کس نے نازل کی ہے؟ جس کے ذریعہ ہم نے تمہارے لیے خوبصورت باغات اگائے ہیں، تم ان درختوں کو اگانے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ ظاہر ہے اس کے سوا کوئی جواب نہیں کہ یہ سارے کام اللہ کے ہیں۔ تو پھر تم کیوں اللہ کے سوا کسی اور کی پرستش کرتے ہو؟