وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ فَإِذَا هُمْ فَرِيقَانِ يَخْتَصِمُونَ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو تو اچانک وہ دو گروہ ہو کر جھگڑ رہے تھے۔
17۔ اس سورت میں مذکور انبیائے کرام اور ان کی قوموں کے عجیب و غریب واقعات میں سے تیسرا واقعہ صالح (علیہ السلام) کا ہے، اور جیسا کہ اوپر موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے واقعہ میں بتایا گیا ہے کہ ان واقعات سے مقصود نبی کریم (ﷺ) کو تسلی دینی، اور کفار مکہ کے لیے آپ (ﷺ) کی نبوت کی دلیل فراہم کرنی ہے کہ یہ عجیب و غریب واقعات آپ کو بذریعہ وحی بتائے جا رہے ہیں، ورنہ ایک ان پڑھ آدمی جس کا مکہ سے باہر کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں، اسے ان واقعات کی کیسے خبر ہوجاتی جو سیکڑوں سال قبل گذرے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے قوم ثمود کے پاس ان کے نسبی بھائی صالح کو نبی بنا کر بھیجا، جنہوں نے ان سے کہا کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو، تو ایک گروہ نے ان کی دعوت قبول کرلی اور ان پر ایمان لے آیا، اور دوسرے گروہ نے ان کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور بتوں کی پرستش پر مصر رہا، جیسا کہ سورۃ الاعراف آیات 75، 76 میں اس مخالفت و عداوت کی تفصیل گذر چکی ہے، اور صالح (علیہ السلام) سے کہا کہ اگر تم اپنے دعوی میں سچے ہو تو کوئی نشانی پیش کرو، چونکہ نشانی آجانے کے بعد اگر ایمان نہ لاتے تو ہلاک کردئیے جاتے،