سورة آل عمران - آیت 26

قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کہہ دے اے اللہ! بادشاہی کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لیتا ہے اور جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کردیتا ہے، تیرے ہی ہاتھ میں ہر بھلائی ہے، بے شک تو ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

22۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو طریقہ دعا سکھلایا ہے، اور تسبیح و تحمید کی تعلیم دی ہے۔ اللہ تعالیٰ مالک کل، مالک مطلق اور مالک حقیقی ہے، اپنے ملک میں جیسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے، ایجاد کرتا ہے، ختم کرتا ہے، مارتا ہے، زندہ کرتا ہے، عذاب یا ثواب دیتا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں اور نہ کوئی اسے روک سکتا ہے، وہ جسے چاہتا ہے، بادشاہ بنا دیتا ہے، اس لیے کہ حقیقی بادشاہت اسی کے ساتھ خاص ہے، اور دوسروں کی بادشاہت مجازی اور عارضی ہے۔ اسی کے ہاتھ میں عزت و ذلت ہے، اور اسی کے ہاتھ میں تمام بھلائیاں ہیں۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آیت میں ملک سے مراد نبوت ہے۔ حافظ ابن کثیر (رح) کہتے ہیں، آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور امت مسلمہ پر احسان کر کے نبوت بنی اسرائیل سے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف منتقل کردی، اور ان کے دین کو تمام ادیان پر غالب کردیا، اور پوری دنیا میں پھیلا دیا، اس لیے مسلمانوں کو اس نعمت عظمی کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے۔