بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔
نام : آیت 18 میں’’ النمل‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ جس کا معنی چیونٹیاں ہے۔ یہی لفظ اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ صاحب محاسن التنزیل مفسر مہامیی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس آیت میں چیونٹیوں کی آپس کی گفتگو نقل کی گئی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حیوانات تک کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ انبیائے کرام اور ان کے اصحاب قصداً کسی کو تکلیف پہنچانا گوارہ نہیں کرتے ہیں۔ اور جب وہ اس درجہ کے اعلی و ارفع انسان ہوتے ہیں تو ان پر ایمان لانا اور ان پر اعتماد کرنا، عقلی طور پر واجب ہوجاتا ہے، اسی مناسبت سے اس سورت کا نام النمل رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی لکھتے ہیں کہ یہ سورت سب کے نزدیک مکی ہے۔ انتہی، اور عام مکی سورتوں کی طرح اس میں بھی (بعث بعد الموت) کے عقیدے پر مختلف پیرائے سے بحث کی گئی ہے، اور کفار مکہ کو آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے جو تمام دینی اور اخروی بھلائیوں کا سرچشمہ ہے۔ چند دیگر موضوعات بھی زیر بحث آئے ہیں، مثلاً قرآن کریم کی حقانیت، توحید باری تعالیٰ کا اثبات اور نماز و زکاۃ وغیرہ، لیکن مرکزی موضوع آخرت پر ایمان لانا ہی ہے۔