إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور عمل کیا، نیک عمل تو یہ لوگ ہیں جن کی برائیاں اللہ نیکیوں میں بدل دے گا اور اللہ ہمیشہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
آیت 70 میں اللہ تعالیٰ نے اس ہمیشگی کے عذاب سے ان لوگوں کو مستثنی قرار دیا ہے جو صدق دل سے تائب ہوجائیں گے، اللہ رسول، آخرت اور دین اسلام پر ایمان لائیں گے اور اسلام کے فرائض خمسہ کی پابندی کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا، اس لیے کہ وہ بڑا مغفرت کرنے والا اور نہایت مہربان ہے، ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ (ﷺ) کے زمانے میں کئی سال تک ﴿يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا﴾، پڑھتے رہے، پھر آیت 70 نازل ہوئی، تو رسول اللہ (ﷺ) اتنا زیادہ خوش ہوئے کہ میں نے آپ (ﷺ) کو اتنا خوش پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں، یہ آیت دلیل ہے کہ قاتل کی توبہ قبول کی جاتی ہے، اور اس آیت اور سورۃ النساء کی آیت 93 ﴿وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا﴾، کے درمیان تعارض نہیں ہے۔ اس لیے کہ سورۃ النساء کی آیت اگرچہ مدنی ہے، لیکن مطلق ہے، اس لیے اسے اس آدمی پر محمول کیا جائے گا جو توبہ نہیں کرے گا، اور سورۃ الفرقان کی یہ آیت توبہ کے ساتھ مقید ہے۔ سورۃ النساء میں مذکورہ بالا آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے، میں اس موضوع پر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے، اسے دیکھ لینا مفید رہے گا۔