لِّنُحْيِيَ بِهِ بَلْدَةً مَّيْتًا وَنُسْقِيَهُ مِمَّا خَلَقْنَا أَنْعَامًا وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا
تاکہ ہم اس کے ذریعے ایک مردہ شہر کو زندہ کریں اور اسے اس (مخلوق) میں سے جو ہم نے پیدا کی ہے، بہت سے جانوروں اور انسانوں کو پینے کے لیے مہیا کریں۔
اللہ تعالیٰ نے پانی کو پیدا کیا، اسے بارش کی شکل میں زمین پر برسایا، انسانوں اور حیوانات کے اجسام کو اس کا محتاج بنایا، اور پھر انہیں اس کا پینا اور استعمال کرنا سکھایا، یہ ساری باتیں اس کے رب ہونے کی دلیل ہیں۔ یہ آیت اور سورۃ الانفال کی آیت 11 ﴿وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ﴾ دلیل ہے کہ پانی کو اللہ نے پاک کرنے والا بنایا ہے، نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ بے شک پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی ہے (ابو داود، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ) پانچویں دلیل۔ بارش کے پانی میں اللہ کا تصرف ہے کہ کبھی ایک علاقے میں بارش ہوتی ہے اور دوسرا علاقہ خشک رہتا ہے۔ اللہ اپنی حکمت کے تقاضوں کے مطابق اسے جہاں چاہتا ہے بھیجتا ہے، اور جہاں سے چاہتا ہے، اسے روک لیتا ہے، اس کی مرضی میں کوئی دخل نہیں دے سکتا۔ بہت سے مفسرین کے نزدیک صرفنا سے مراد وہ تمام نشانیاں ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ یعنی اللہ نے سایہ، بادل اور بارش کو قرآن اور دیگر آسمانی کتابوں میں بار بار اس لیے ذکر کیا ہے تاکہ لوگ ان میں غور و فکر کر کے اللہ کی توحید ربوبیت کے قائل ہوں، اور اس کے ساتھ عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں۔