لِّلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّهُ ۖ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے اور اگر تم اسے ظاہر کرو جو تمھارے دلوں میں ہے، یا اسے چھپاؤ اللہ تم سے اس کا حساب لے گا، پھر جسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
379: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ بندوں کے تمام احوال وکوائف کو جانتا ہے، ان کے دلوں کی ظاہر اور چھپی تمام باتوں کو جانتا ہے، اور ان پر ان کا محاسبہ کرے گا، جسے چاہے گا معاف کردے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا۔ امام احمد، مسلم، نسائی وغیرہم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام بہت پریشان ہوئے، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ان سے فرمایا : تم لوگ کہو کہ اے ہمارے رب ! ہم نے سنا اور اطاعت و بندگی کے لیے جھگ گئے۔ تو اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان کو راسخ کردیا، اور اگلی آیت نازل ہوئی، یعنی ، اور بات اس پر آ کر رکی کہ بندہ اسی قول و فعل کا ذمہ دار ہے جس کا اس نے ارتکاب کیا ہے، اور اس سے پہلی والی آیت منسوخ ہوگئی، جیسا کہ امام بخاری نے مروان الاصفر سے اور انہوں نے ایک صحابی رسول سے جو غالبا ابن عمر تھے روایت کی ہے کہ آیت اس کے والی آیت کے ذریعہ منسوخ ہوچکی ہے یہی قول علی، ابن مسعود، شعبی، عکرمہ، سعید بن جبیر اور قتادہ کا ہے۔ لیکن ابن جریر نے حسن بصری کا قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے بلکہ محکم ہے، اور ابن جریر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے، اور دلیل یہ پیش کی ہے کہ حساب عقاب کو لازم نہیں، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ حساب لینے کے بعد معاف کردے، جیسا کہ صحیحین کی روایت سے ثابت ہوتا ہے، کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جب اپنے ایک بندے سے اس کے کان کے قریب جا کر اس کے گناہوں کا اعتراف کروالے گا، تو کہے گا کہ میں نے دنیا میں تمہاری پردہ پوشی کی تھی، اور آج تمہیں معاف کرتا ہوں بعض دوسرے حضرات جو اس آیت کے منسوخ ہونے کے قائل نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ جن احادیث میں یہ آیا ہے کہ بندے کے دل میں جو کچھ گذرتا ہے، جب تک اپنے قول وعمل کے ذریعہ اس کی تصدیق نہ کردے اللہ اسے معاف کردے گا، تو اس سے مراد وہ خیالات پراگندہ ہیں جو بندے کے دل میں گذرتے ہیں، اور جن کے کر گذرنے کا وہ عزم نہیں کرتا اور یہاں اس آیت میں مراد وہ پختہ ارادہ اور دل کا وہ عزم مصمم ہے، جو عمل کے مترادف ہوتا ہے، اللہ بندے کا اس پر محاسبہ کرے گا، کیونکہ ایسی نیت اس کے کسب و عمل میں داخل ہے۔ جس کا ذکر اگلی آیت میں ہے کہ ۔