وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ ۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ ۗ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
اور اگر تم کسی سفر پر ہو اور کوئی لکھنے والا نہ پاؤ تو ایسی گروی چیزیں لازم ہیں جو قبضے میں لے لی گئی ہوں، پھر اگر تم میں سے کوئی کسی پر اعتبار کرے تو جس پر اعتبار کیا گیا ہے وہ اپنی امانت ادا کرے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور شہادت مت چھپاؤ اور جو اسے چھپائے تو بے شک وہ، اس کا دل گناہ گار ہے اور اللہ جو کچھ تم کر رہے ہو اسے خوب جاننے والا ہے۔
387۔ اگر آدمی سفر میں ہو، اور خرید و فروخت کی نوبت آجائے، اور کاتب میسر نہ ہو تو ایسی صورت میں حقوق کی توثیق رہن کے ذریعہ کردینی چاہئے، تاکہ رہن اس بات کا ثوبت ہو کہ رہن رکھنے والے کے ذمہ اس آدمی کا حق ہے جس کے پاس رہن موجود ہے، معلوم ہوا کہ اشیائے رہن اور ضمانتوں کے ذریعے لوگوں کے حقوق کی حفاظت ہوتی ہے، اور خلاف و نزاع کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ رہن ہمیشہ صاحب حق کے قبضے میں رہنا چاہئے، اور یہ بات تحریر میں آجانی چاہئے۔ اگر راہن اور مرتہن کے درمیان مقدار قرض میں اختلاف واقع ہوجائے تو بات صاحب حق کی مانی جائے گی، اس لیے کہ رہن اس کے ہاتھ میں بطور وثیقہ موجود ہے، آیت سے یہ بھی مستفاد ہے کہ آپس میں اعتماد ہونے کی صورت میں بغیر وثیقہ اور بغیر گواہ بنائے بھی خرید و فروخت اور قرض کا لین دین کیا جاسکتا ہے، یہ بھی مستفاد ہے کہ گواہ کا اپنی گواہی چھپانا حرام ہے۔