إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
بے شک وہ لوگ جو پاک دامن، بے خبر مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا اور آخرت میں لعنت کیے گئے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔
14۔ اس آیت کے بارے میں ائمہ تفسیر کے درمیان اختلاف ہے۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ یہ ان سے متعلق ہے جنہوں نے عائشہ صدیقہ کے بارے میں کلام کیا تھا۔ مقاتل کہتے ہیں کہ یہ عبداللہ بن ابی کے بارے میں ہے، اور ضحاک اور کلبی کہتے ہیں کہ یہ آیت عائشہ صدیقہ اور دیگر امہات المومنین سے متعلق ہے، دوسری مسلمان عورتیں اور مرد اس میں داخل نہیں ہیں، لیکن راجح یہی ہے کہ اس آیت کا تعلق عبداللہ بن ابی سے ہے،ا ور علمائے تفسیر کے عام قاعدے کے مطابق اس کا حکم عام ہے کہ جو شخص کسی پاکدامن مسلمان عورت پر زنا کی جھوٹی تہمت لگائے گا وہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ اللہ کی رحمت سے دور کردیا جائے گا، اور دنیا میں اس پر حد جاری کی جائے گی، اور آخرت میں جہنم میں ڈال دیا جائے گا، صاحب فتح البیان لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں عائشہ صدیقہ پر تہمت لگائے جانے کی جس شدت کے ساتھ نکیر کی ہے، ویسی کسی گناہ پر نہیں کی ہے۔ کبھی مجمل طور پر اس کی تردید کی ہے تو کبھی مفصل طور پر، اور اس تردید و انکار کا بار بار اعادہ کیا ہے، تاکہ لوگوں کو اس گناہ کی قباحت و شناعت کا صحیح اندازہ ہوسکے۔ ابن عباس سے منقول ہے کہ اگر کوئی شخص گناہ کر کے تائب ہوجائے گا تو اس کی توبہ قبول کرلی جائے گی، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے عائشہ صدیقہ کی عفت و پاکدامنی پر کلام کیا تھا۔