الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ
زانی نکاح نہیں کرتا مگر کسی زانی عورت سے، یا کسی مشرک عورت سے، اور زانی عورت، اس سے نکاح نہیں کرتا مگر کوئی زانی یا مشرک۔ اور یہ کام ایمان والوں پر حرام کردیا گیا ہے۔
3۔ اس آیت کریمہ سے مقصود زنا کی قباحت اور زانیوں کی حقارت و دنائت بیان کرنی ہے، اس لیے آیت کا معنی یہ ہوگا کہ زانی کی حرام رغبت و خواہش پوری کرنے پر زانیہ اور اللہ کی نافرمان بندی ہی تیار ہوگی، یا مشرک عورت تیار ہوگی جو زنا کو حرام نہیں سمجھتی ہے، اسی طرح زانیہ کی حرام رغبت و خواہش پوری کرنے پر زانی اور اللہ کا نافرمان بندہ ہی تیار ہوگا، یا مشرک آدمی جو زنا کو حرام نہیں سمجھتا ہے۔ ابن عباس سے یہی تفسیر منقول ہے اور مجاہد، عکرمہ، سعید بن جبیر اور عروہ بن الزبیر وغیرہم کی بھی یہی رائے ہے۔ زنا کا ارتکاب اور زانیہ عورتوں سے شادی کرنی، یا پاکدامن مسلمان عورتوں کی فاجروں کے ساتھ شادی کردینی، یہ ساری باتیں مسلمانوں کے لیے حرام کردی گئی ہیں۔ ابن عباس کی اس تفسیر کی تائید ان روایات سے بھی ہوتی ہے جنہیں امام احمد، ابو داؤد، نسائی اور ترمذی وغیرھم نے اس آیت کا شان نزول بتانے کے لیے روایت کی ہے، اور جن کا خلاصہ یہ ہے کہ بعض صحابہ نے بعض زانیہ عورتوں سے شادی کرنی چاہی، تو یہ آیت نازل ہوئی، اور رسول اللہ (ﷺ) نے انہیں زانیہ عورتوں سے شادی کرنے سے منع فرما دیا۔ حافظ ابن کثیر اور امام شوکانی نے ان روایتوں کو ذکر کیا ہے۔ اسی لیے امام احمد بن حنبل کی رائے ہے کہ پاکدامن مرد کی شادی زانیہ عورت سے صحیح نہیں ہوگی، یہاں تک کہ وہ صدق دل سے توبہ کرے اسی طرح پاکدامن عورت کی شادی زانی و فاجر مرد سے صحیح نہیں ہوگی یہاں تک کہ وہ سچی توبہ کرے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایسا کرنا مومنوں کے لیے حرام کردیا گیا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے بھی اس رائے کی تائید کی ہے۔