وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ ۚ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ
اور وہ تجھ سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اللہ ہرگز اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرے گا اور بے شک ایک دن تیرے رب کے ہاں ہزار سال کے برابر ہے، اس گنتی سے جو تم شمار کرتے ہو۔
(27) یہ آیت کریمہ نضر بن حارث اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو عذاب کی جلدی مچاتے تھے اور کبر و عناد میں آکر رسول اللہ (ﷺ) سے مطالبہ کرتے تھے کہ جس عذاب کی انہیں دھمکی دی جاتی ہے وہ ابھی اور اسی لمحہ کیوں نہیں آجاتا۔ سورۃ الانفال آیت (32) میں ان کے اسی قول کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اے اللہ ! اگر یہ قرآن وقعی تیرا کلام ہے تو ہم پر تو آسمان سے پتھر برسا دے، یا ہم پر کوئی اور دردناک عذاب نازل کردے، اللہ تعالیٰ نے رسول کریم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ انہیں عذاب کی بڑی جلدی پڑی ہے، تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے اس کا عذاب آکر رہے گا، یہ تو اس کی غایت بردباری اور دشمنان اسلام سے انتقام لینے کی اس کی انتہائے قدرت کی وجہ سے ایسا ہورہا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ وہ جب چاہے گا انتقام لے لے گا اسی لیے لوگوں کا ہزار سال، اس کی بردباری کے پیش نظر گویا ایک دن کے مانند ہے