لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ
تاکہ وہ اپنے بہت سے فائدوں میں حاضر ہوں اور چند معلوم دنوں میں ان پالتو چوپاؤں پر اللہ کا نام ذکر کریں جو اس نے انھیں دیے ہیں، سو ان میں سے کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو کھلاؤ۔
آیت (28) میں حج کی غرض و غایت بتاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے حج میں بہت سے دینی اور دنیوی فوائد جمع کردئیے ہیں، دینی فوائد تو یہ ہیں کہ اللہ حاجیوں کے گناہوں کو معاف کرتا ہے ان کی دعائیں قبول فرماتا ہے اور وہ اپنے رب کی رضا و خوشنودی لے کر اپنے گھروں کو واپس ہوتے ہیں۔ اور دنیوی فوائد یہ ہیں کہ پورے سفر حج میں وہ تجارت کرتے ہیں، صنعت و حرفت سیکھتے ہیں، اور جو تجربات حاصل کرتے ہیں ان کے لیے آئندہ تجارتی زندگی میں مفید ہوتے ہیں۔ اور ایام تشریق (دس تاریخ سے تیرہ تاریخ تک) میں اللہ کا نام لے کر جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ زمخشری نے لکھا ہے کہ یہاں اللہ کا نام لینے سے مراد ذبح کرنا ہے، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اہل اسلام جب بھی قربانی کریں گے یا گوشت کھانے کے لیے جانور ذبح کریں گے تو اللہ کا نام ضرور لیں گے اس لیے کہ مقصود ہر حال میں اللہ کا نام لینا ہے، اور رازی نے اس پر یہ اضافہ کیا ہے کہ مقصود ان مشرکین کی مخالفت ہے جو بتوں کے نام پر جانور ذبح کرتے تھے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جس جانور کی قربانی کرو اس کا گوشت خود بھی کھاؤ اور ان محتاجوں کو کھلاؤ جنہوں نے قربانی نہ کی ہو۔