وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَىٰ حَرْفٍ ۖ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ ۖ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ
اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے جو اللہ کی عبادت ایک کنارے پر کرتا ہے، پھر اگر اسے کوئی بھلائی پہنچ جائے تو اس کے ساتھ مطمئن ہوجاتا ہے اور اگر اسے کوئی آزمائش آپہنچے تو اپنے منہ پر الٹا پھر جاتا ہے۔ اس نے دنیا اور آخرت کا نقصان اٹھایا، یہی تو صریح خسارہ ہے۔
(6) صریح اہل کفر کے بعد اس آیت کریمہ میں بعض ان منافقین کا ذکر ہورہا ہے جو صرف دنیاوی مصالح کی خاطر ظاہر کرتے تھے کہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں جب تک وہ مصالح حاصل ہوتے رہتے تھے اور کسی دکھ اور تکلیف میں مبتلا نہیں ہوتے تھے دین اسلام پر باقی رہتے تھے، اور جونہی انہیں کوئی تکلیف لاحق ہوتی تھی ان کا اصلی چہرہ سامنے آجاتا تھا اور کفر کی طرف لوٹ جاتے تھے، اور اپنی دنیا اور آخرت دونوں ہی برباد کر بیٹھے تھے، اور یہی کسی انسان کا کھلا خسارہ ہے کیونکہ اگر وہ لوگ اپنے ایمان میں مخلص ہوتے تو آخرت میں کامیاب ہوتے اور جو دنیاوی خسارہ ہوا تھا اللہ اسے بھی پورا کردیتا کہ پھر سے مال و اولاد سے نواز دیتا۔ صحیح بخاری میں ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں مروی ہے کہ بعض لوگ مدینہ آتے تھے (اور مسلمان ہونے کا اعلان کردیتے تھے) پھر اگر ان کی بیویاں لڑکے جنتیں اور ان کے مال میں بڑھاوا ہوتا تو کہتے کہ یہ اچھا دین ہے اور اگر ان کے یہاں لڑکے نہیں پیدا ہوتے اور ان کے مال میں اضافہ نہیں ہوتا تو کہتے کہ یہ برا دین ہے۔