بَلْ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ بَلِ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الْأَوَّلُونَ
بلکہ انھوں نے کہا یہ خوابوں کی پریشان باتیں ہیں، بلکہ اس نے اسے گھڑ لیا ہے، بلکہ یہ شاعر ہے، پس یہ ہمارے پاس کوئی نشانی لائے جیسے پہلے (رسول) بھیجے گئے تھے۔
(٥) کفار مکہ نے قرآن کریم کے بارے میں لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے، بلکہ جادو، جھوٹے خواب، اللہ کے خلاف افترا پردازی اور شاعری کا مجموعہ ہے، اور اگر محمد کو اصرار ہی ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے تو گزشتہ انبیا کی طرح کوئی نشانی لا کر دکھائے، جیسے صالح نے اونٹنی نکلا کر دکھا دی اور موسیٰ اور عیسیٰ نے دوسرے معجزات پیش کیے۔ بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ ان کا یہ سوال خبث و شرارت اور کفر و عناد پر مبنی تھا، اس لیے کہ قرآن کریم کی آیتیں اور نبی کریم کے ذریعہ دیگر معجزات کا وقتا فوقتا ظہور، ایمان لانے کے لیے کافی تھا اور اگر اللہ کے علم میں ہوتا کہ وہ گزشتہ انبیا جیسی نشانیاں دیکھ کر ایمان لے آئیں گے تو اللہ ویسی نشانیاں بھی بھیج دیتا، لیکن ان کا یہ انداز گفتگو صرف حق کا انکار کرنے کے لیے تھا،