وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ
اور اپنی آنکھیں ان چیزوں کی طرف ہرگز نہ اٹھا جو ہم نے ان کے مختلف قسم کے لوگوں کو دنیا کی زندگی کی زینت کے طور پر برتنے کے لیے دی ہیں، تاکہ ہم انھیں اس میں آزمائیں اور تیرے رب کا دیا ہوا سب سے اچھا اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔
٥٩۔ اہل کفر و شرک کو دنیا کی زندگی میں آرام و آسائش کے جو اسباب دیئے گئے ہیں وہ دینی اعتبار سے کوئی اچھی چیز نہیں ہے، بلکہ ان کے لیے آزمائش اور فتنہ کا باعث ہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو ان کی خواہش کرنے سے منع فرمایا اور بتایا کہ آپ کا رب نیک عمل کرنے والوں کو آخرت میں جو اجر و ثواب دے گا وہ بہت ہی بہتر اور دائمی ہوگا۔ ایک دوسرا معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اللہ نے آپ کو جس منصب رسالت پر فائزہ کیا ہے اور جو آخری دین، دین اسلام دے کر بھیجا ہے وہ ان دنیاوی نعمتوں سے کہیں زیادہ بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے جو مشرکین کو دیا گیا ہے دونوں کے درمیان دور کی بھی مناسبت نہیں ہے، اس لیے کہ دین اسلام دنیا و آخرت کی نیک بختی کا ذریعہ ہے، اور انہیں جو چیز ملی ہے وہ کچھ ہی دنوں کے بعد ختم ہوجانے والی ہے۔ بزار، ابو یعلی، اور ابن ابی شعیبہ وغیرہم نے ابو رافع سے روایت کی ہے اور علامہ البانی نے صحیح الجامع الصغیر میں ذکر کیا ہے کہ ایک دن رسول اللہ کے پاس ایک مہمان آیا، آپ کے گھر میں کوئی چیز نہیں تھی، تو آپ نے مجھے ایک یہودی کے پاس بھیجا کہ وہ ماہ رجب کا چاند نکلنے تک کے وعدے پر آٹا ادھار دے دے، اس نے رہن کا مطالبہ کیا، واپس آکر میں نے آپ کو خبر دی تو آپ نے فرمایا، اللہ کی قسم ! میں آسمان میں امین ہوں اور زمین میں بھی، اگر وہ مجھے ادھار دے دیتا تو میں ضرور اس کے پیسے ادا کردیتا، میرا لوہے کا زرہ لے کر اسے دے دو، میں ابھی وہاں سے واپس بھی نہ ہوا تھا کہ یہ آیت نازل ہوئی، جس میں آپ کو دنیا کی لالچ نہ کرنے کی نصیحت کی گئی ہے۔