قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَاةِ أَن تَقُولَ لَا مِسَاسَ ۖ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّن تُخْلَفَهُ ۖ وَانظُرْ إِلَىٰ إِلَٰهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا ۖ لَّنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفًا
کہا پس جاکہ بے شک تیرے لیے زندگی بھر یہ ہے کہ کہتا رہے ’’ہاتھ نہ لگانا‘‘ اور بے شک تیرے لیے ایک اور بھی وعدہ ہے جس کی خلاف ورزی تجھ سے ہرگز نہ کی جائے گی اور اپنے معبود کو دیکھ جس پر تو مجاور بنا رہا، یقیناً ہم اسے ضرور اچھی طرح جلائیں گے، پھر یقیناً اسے ضرور سمندر میں اڑا دیں گے، اڑانا اچھی طرح۔
(٣٥) موسیٰ (علیہ السلام) نے سامری کی زبانی تفصیلات سننے کے بعد، اللہ کے حکم سے اسے شہر بدر کردیا اور بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ کوئی آدمی بھی اس سے بات نہ کرے اور ہر شخص اس سے قطع تعلق کرلے، ایک مفہوم تو یہ ہے اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ انہوں نے اسے اللہ کا یہ فیصلہ سنا دیا کہ اسے ہمیشہ کے لیے چھوت کی بدترین بیماری لگ گئی، وہ اب جب تک زندہ رہے گا اس کا حال یہ ہوگا کہ کسی کو اپنے قریب نہ آنے دے گا، اور ہر شخص سے کہے گا کہ میرے قریب نہ آؤ﴿ لَا مِسَاسَ ﴾کا لغوی معنی یہ ہے کہ مجھے کوئی نہ چھوئے، اور میں کسی کو نہ چھوؤں۔ علمائے تفسیر نے اس کا سب سے بہتر مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سامری پر لوگوں کی قربت کو حرام کردیا، وہ جب بھی کسی کو چھوتا دونوں کو شدید بخار آجاتا، اس لیے کسی آدمی کو اپنے سے قریب ہوتے دیکھ کر بھاگ پڑتا اور چیخنے لگتا کہ میرے قریب نہ آؤ۔ چنانچہ وہ شہر سے نکل کر جنگل میں چلا گیا اور جانوروں کی سی زندگی گزارنے لگا اور اسی حال میں مرگیا، قرآن کے ظاہری الفاظ اسی مفہوم کی تائید کرتے ہیں، اس نے جبریل کے گھوڑے کے کھر کی مٹی چھو کر بنی اسرائیل کو گائے کی عبادت پر لگا دیا تھا، اسی لیے اللہ نے اسے یہ سزا دی کہ اس کے بعد زندگی بھر وہ کسی آدمی کو نہ چھو سکا۔ یہ دنیاوی سزا تھی جو سامری کو اللہ کی جانب سے ملی، اور عذاب آخرت کے بارے میں اسے بتایا گیا کہ اس کے لیے ایک وقت مقرر ہے جب وہ وقت آجائے گا تو تمہیں اسے بھگتنا پڑے گا، کسی حال میں بھی تم اس سے بچ نہ سکو گے۔ (٣٦) موسیٰ (علیہ السلام) نے سامری سے کہا کہ تم اپنے جس معبود کے سامنے ہر دم جھکے رہتے تھے، ہم اسے جلا کر خاکستر بنا دیں گے، اور اس کی راکھ سمندر میں بکھیر دیں گے تاکہ اس کا کوئی نشان باقی نہ رہے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، ان کا مقصد سامری اور دیگر بت پرستوں کے سامنے ان کے اس جھوٹے اور حقیر معبود کی حقارت کا اظہار تھا۔