قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي ۖ إِنِّي خَشِيتُ أَن تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي
اس نے کہا اے میری ماں کے بیٹے! نہ میری ڈاڑھی پکڑ اور نہ میرا سر، میں تو اس سے ڈرا کہ تو کہے گا تو نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا انتظار نہ کیا۔
تو ہارون (علیہ السلام) نے کہا، میرے بھائی ! میری داڑھی اور سر کے بال نہ کھینچو، میں نے تو یہ سوچا کہ اگر میں صرف موحدین کو لے کر تمہارے پاس آجاتا ہوں اور بچھڑے کی عبادت کرنے والوں کو چھوڑ دیتا ہوں تو تم کہو گے کہ آپ نے بنی اسرائیل کو دو حصوں میں بانٹ دیا اور میری بات کا خیال نہیں کیا کہ میری عدم موجودگی میں ان کی دیکھ بھال کیجیے گا۔ قرطبی لکھتے ہیں : امام ابوبکر طرطوشی سے ایسے لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا، جو ذکر اللہ اور ذکر رسول کے لیے جمع ہوتے ہیں، ڈھول بجاتے ہیں، اور ناچتے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ صوفیا کا مذہب بے کاری، جہالت اور گمراہی کا مجموعہ ہے، اسلام قرآن و سنت کا نام ہے، عبادت کے لیے رقص و سرود کا استعمال سب سے پہلے سامری نے کیا تھا، اسی نے بچھرا بنا کر لوگوں کو اس کی عبادت کی دعوت دی تھی، اور اس کے گرد رقص و سرود کی محفلیں جمائی تھی۔ معلوم ہوا کہ یہ کافروں کا اور بچھڑے کی عبادت کرنے والوں کا دین ہے، اور ڈھول کا استعمال سب سے پہلے زندیقیوں یعنی بے دینوں نے کیا جن کا مقصد مسلمانوں کو قرآن کریم کی تلاوت سے دور رکھنا تھا۔ نبی کریم اور صحابہ کرام کی مجلس تو ایسی ہوتی تھی کہ گویا ان کے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہوں، اس لیے کسی مسلمان کے لیے ایسی مجلسوں میں شریک ہونا حلال نہیں ہے، جو عبادت کے نام پر رقص و سرود کے لیے منعقد کی گئی ہوں۔ ائمہ کرام مالک، ابو حنیفہ، شافعی اور حمد بن حنبل وغیرہم کا یہی مذہب ہے۔