وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَن يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ۚ وَأَن تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۚ وَلَا تَنسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور اگر تم انھیں اس سے پہلے طلاق دے دو کہ انھیں ہاتھ لگاؤ، اس حال میں کہ تم ان کے لیے کوئی مہر مقرر کرچکے ہو تو تم نے جو مہر مقرر کیا ہے اس کا نصف (لازم) ہے، مگر یہ کہ وہ معاف کردیں، یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے اور یہ (بات) کہ تم معاف کر دو تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور آپس میں احسان کرنا نہ بھولو، بے شک اللہ اس کو جو تم کر رہے ہو، خوب دیکھنے والا ہے۔
331: اس میں ایسی عورت کے طلاق کا حکم بیان کیا جا رہا ہے، جس کے ساتھ شوہر نے مباشرت نہ کی ہو، لیکن اس کی مہر مقرر ہوچکی ہو۔ اللہ نے فرمایا کہ اسے نصف مہر دی جائے گی۔ یہ بھی جائز ہے کہ عورت معاف کردے اور کہے کہ اس نے مجھے دیکھا نہیں، اور نہ میں نے اس کی خدمت کی، نہ مجھ سے مستفید ہوا، تو میں کیسے اس سے کوئی رقم لے لوں، یا شوہر نے اگر مہر کی پوری رقم ادا کردی تھی تو وہ معاف کردے اور عورت سے نصف مہر واپس نہ لے، یا اگر لڑکی نابالغ ہے یا اسے معاملہ کرنا نہیں آتا، تو اس کا ولی شوہر سے نصف مہر نہ لے اور معاف کردے، اور اللہ نے فرمایا کہ بہرحال معاف کردینا تقوی کے زیادہ قریب اور عمل احسان ہے اس کے بعد اللہ نے ہر ایک کو معاف کردینے کی ترغیب دلائی کہ جو معاف کردے گا وہ دوسرے سے بہتر ہوگا۔