وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا
اور تم میں سے جو بھی ہے اس پر وارد ہونے والا ہے۔ یہ ہمیشہ سے تیرے رب کے ذمے قطعی بات ہے، جس کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔
(44) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک حتمی فیصلہ سنایا ہے کہ مومن ہو یا کافر، ہر ایک کو بہرحال جہنم سے واسطہ پڑے گا، پھر اللہ اپنے فضل و کرم سے اہل تقوی کو اس سے نجات دے گا اور جن لوگوں نے دنیا میں کفر و استکبار کی زندگی گزاری ہوگی اور بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کیا ہوگا، جہنم میں شدید عذاب جھیلنے کے لیے چھوڑ دیئے جائیں گے۔ علمائے تفسیر کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیت میں’’ ورود‘‘ سے کیا مراد ہے، ایک رائے یہ ہے کہ نیک اور بد سبھی جہنم میں داخل ہوں گے، لیکن نیکوں کے لیے آگ ٹھنڈی بنا دی جائے گی اور پھر اس سے نکال دیئے جائیں گے، اور جو لوگ جہنم کے عذاب کے مستحق ہوں گے، اسی میں چھوڑ دیئے جائیں گے اور آگ نہ پہلے ان کے لیے ٹھنڈی ہوگی اور نہ اہل تقوی کے اس میں سے نکل جانے کے بعد اس رائے کے قائلین نے ’’ورود ‘‘کا معنی ’’دخول ‘‘ کیا ہے اور جابر بن عبداللہ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں نبی کریم نے فرمایا ہے کہ ہر نیک و بد جہنم میں داخل ہوگا، لیکن مومن کے لیے آگ ٹھنڈی ہوجائے گی اور سلامتی بن جائے گی۔ دوسری رائے یہ ہے کہ ’’ورود ‘‘سے مراد’’ مرور‘‘ یعنی گزرنا ہے، یعنی مومن و کافر، نیک و بد سبھی اس پل پر گزریں گے جو جہنم پر رکھا جائے گا، نیک لوگ اپنے اپنے اعمال کے مطابق تیز یا آہستہ گزر جائیں گے اور جو جہنم کے عذاب کے حقدار ہوں گے اس میں اللہ کے حکم سے گرجائیں گے۔ قرآنی آیات اور صحیح احادیث کی روشنی میں یہی رائے راجح معلوم ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانبیاء آیت (101) میں فرمایا ہے : ﴿إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَى أُولَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ ﴾ بیشک جن کے لیے ہماری طرف سے پہلے ہی بھلائی ٹھہر چکی ہے وہ سب جہنم سے دور ہی رکھے جائیں گے۔ اور امام احمد، ترمذی، حاکم اور بیہقی وغیرہم نے اس آیت کی تفسیر میں ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : سبھی لوگ جہنم پر وارد ہوں گے، پھر اپنے اپنے اعمال کے مطابق اس کے اوپر سے گزر جائیں گے۔ الحدیث۔ اور یہ حدیث جابر بن عبداللہ والی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،