وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ ۖ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا
اور ہم نہیں اترتے مگر تیرے رب کے حکم کے ساتھ۔ اسی کا ہے جو ہمارے آگے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے اور جو اس کے درمیان ہے اور تیرا رب کبھی بھولنے والا نہیں۔
(40) اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ کچھ دنوں کے لیے وحی کا نزول بند ہوگیا، تو رسول اللہ پریشان ہوئے، اس کے بعد جب جبریل (علیہ السلام) آپ کے پاس تشریف لائے، تو آپ نے ان سے کہا کہ آپ کثرت سے کیوں نہیں آتے؟ تو یہ آیت نازل ہوئی، امام احمد، امام بخاری اور دیگر ائمہ حدیث نے ابن عباس سے یہی روایت کی ہے، آیت کا مفہوم جبریل کی زبان یہ ہے کہ اے محمد ہم فرشتے زمین پر یا ایک آسمان سے دوسرے آسمان پر، آپ کے رب کے حکم کے بغیر نہیں اترتے ہیں، اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے، کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے، ایک ذرہ بھی اس کی نظر سے اوجھل نہیں ہے، ہم کوئی کام اس کی اجازت کے بعد ہی کرتے ہیں، اس لیے میرا آپ کے پاس نہ آنا، اس کا حکم نہ ہونے کی وجہ سے تھا، اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ اللہ آپ کو بھول گیا تھا، یا آپ کو چھوڑ دیا تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الضحی میں فرمایا ہے : ﴿ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى﴾ نہ تو آپ کے رب نے آپ کو چھوڑا ہے اور نہ وہ آپ سے بیزار ہوگیا ہے۔