يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا
اے ہارون کی بہن! نہ تیرا باپ کوئی برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں کوئی بدکار تھی۔
اے ہارون کی بہن ! تیرا باپ تو کوئی بدکار آدمی نہیں تھا اور نہ تیری ماں ہی زانیہ عورت تھی، آیت میں (ہارون) سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی ہارون ہیں، اس لیے کہ مریم ان ہی کی نسل سے تھیں، یا اس لیے کہ لوگ مریم کو ہارون (علیہ السلام) کی طرح عابدہ اور صالحہ سمجھتے تھے اسی لیے ان کا نام لے کر انہیں عار دلایا۔ ایک دوسرا قول یہ ہے کہ اس نام کا ان کا ایک بھائی تھا جو نیکی اور صلاح میں مشہور تھا۔ صحیح حدیث سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔ امام احمد، مسلم، ترمذی اور نسائی وغیرہم نے مغیرہ بن شعبہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے انہیں نجران کے عیسائیوں کے پاس بھیجا، انہوں نے کہا کہ تم لوگ اپنے قرآن میں مریم کے بارے میں ﴿ يَا أُخْتَ هَارُونَ﴾ پڑھتے ہو حالانکہ موسیٰ عیسیٰ سے سینکڑوں سال پہلے گزرے ہیں، واپس آکر انہوں نے رسول اللہ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا : تم نے ان سے کیوں نہیں کہا کہ لوگ اپنے بچوں کے نام انبیاء و صالحین کے نام پر رکھتے تھے، یعنی ہارون مریم کے بھائی کا نام تھا۔