قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً ۚ قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا
کہا اے میرے رب! میرے لیے کوئی نشانی مقرر کر دے۔ فرمایا تیری نشانی یہ ہے کہ تو تندرست ہوتے ہوئے لوگوں سے تین راتیں بات نہیں کرے گا۔
(6) زکریا (علیہ السلام) نے کہا، میرے رب ! مجھے کوئی نشانی بتا دے تاکہ جان سکوں کہ واقعی حمل قرار پا گیا ہے، اور میرے دل کو مزید اطمینان حاصل ہو، شوکانی لکھتے ہیں کہ اس سوال سے مقصود یہ تھا کہ جب حمل قرار پا جائے تو انہیں پتہ چل جائے اس لیے کہ بشارت دیتے وقت اس کا کوئی معین وقت نہیں بتایا گیا تھا۔ ابن الانباری کہتے ہیں کہ خوشخبری سن کر ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اب جلد ہی ان کے گھر بیٹا مولود ہو، اسی لیے انہوں نے چاہا کہ اللہ کی جانب سے ان پر جو احسان ہونے والا ہے اس کی کوئی فوری نشانی بتا دے جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ کے لیے نشانی یہ ہوگی کہ زبان و جسم کے بالکل صحیح سالم ہونے کے باوجود تین دن اور تین رات کسی سے بات نہ کرسکیں گے۔ یہاں تین رات کا ذکر آیا ہے اور سورۃ آل عمران آیت (41) میں تین دن کا۔ اس لیے مراد تین دن اور تین رات ہے،