حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِن دُونِهِمَا قَوْمًا لَّا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلًا
یہاں تک کہ جب وہ دوپہاڑوں کے درمیان پہنچا تو ان کے اس طرف کچھ لوگوں کو پایا جو قریب نہ تھے کہ کوئی بات سمجھیں۔
(57) انتہائے مشرق تک پہنچ جانے کے بعد ذوالقرنین نے مشرق و مغرب کے درمیان شمال و مغرب کا راستہ اختیار کیا اور چلتا ہوا انتہائے شمال مغرب میں ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں دونوں طرف دو اونچے اور لمبے پہاڑ تھے اور دونوں کے درمیان ایک جگہ خالی تھی، وہاں انسانوں کی ایک ایسی جماعت رہتی تھی جو کوئی بھی بات نہیں سمجھ پاتی تھی اس لیے کہ ان کی زبان عجیب و غریب تھی، اور ان کے اندر سمجھنے کی صلاحیت بھی کم تھی، مذکور بالا دونوں پہاڑوں کے بارے میں لوگوں کے کئی اقوال ہیں : کسی نے کہا ہے کہ وہ ارمینیا اور آذربیجان کے علاقہ میں دو پہاڑ ہیں۔ کسی نے لکھا ہے کہ وہ ٹرکی کا مشرقی علاقہ ہے جہاں ٹرکی کی سرحد ختم ہوجاتی ہے۔ امام ابن حزم نے اپنی کتاب الملل والنحل میں لکھا ہے کہ وہ جگہ انتہائے شمال میں دنیا کے آخری کنارے پر ہے۔ رازی نے لکھا ہے کہ بظاہر وہ جگہ شمال میں واقع ہے۔ اسکندر نے دونوں پہاڑوں کے درمیان اس کھلی جگہ کو بند کردیا تھا جس کی لمبائی سو فرسخ تھی اور جسے یاجوج و ماجوج آبادی کی طرف آنے کے لیے بطور راستہ استعمال کرتے تھے۔ قرآن بتاتا ہے کہ وہ لوگ دونوں پہاڑوں کے پیچھے رہتے ہیں اور ان کی سرزمین بہت کشادہ ہے اور بحر اٹلانٹک تک پھیلی ہوئی ہے۔