فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا لَقِيَا غُلَامًا فَقَتَلَهُ قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَّقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُّكْرًا
پھر وہ دونوں چل پڑے، یہاں تک کہ جب وہ ایک لڑکے سے ملے تو اس نے اسے قتل کردیا۔ کہا کیا تو نے ایک بے گناہ جان کو کسی جان کے بدلے کے بغیر قتل کردیا، بلاشبہ یقیناً تو ایک بہت برے کام کو آیا ہے۔
(45) کشتی کا سفر طے کرنے کے بعد دونوں خشکی کے راستہ پر چل پڑے، ایک جگہ کچھ لڑکے کھیل رہے تھے، خضر نے ان میں سے ایک کو جو ان کے علم کے مطابق کافر تھا، الگ کر زمین پر لٹا دیا اور چھری سے ذبح کردیا۔ مسلم ابو داؤد اور ترمذی نے ابی بن کعب سے روایت کی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا : جس لڑکے کو خضر نے قتل کیا تھا وہ پیدائشی کافر تھا، بالغ ہو کر اپنے والدین کو بھی کفر پر مجبور کرتا، موسیٰ (علیہ السلام) سے برداشت نہیں ہوا اور ان کے اس فعل پر نکیر کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ایک بے گناہ آدمی کو قتل کردیا جس نے کسی کو قتل نہیں کیا تھا، یہ تو آپ نے کشتی میں سوراخ کرنے سے بھی زیادہ برا کام کیا ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) شدت تاثر کی وجہ سے یہ سوچنا بھول گئے کہ خضر نے کسی ایسے سبب کی بنا پر اس کا قتل کرنا حلال سمجھا ہے جو انہیں معلوم نہیں ہے۔