فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَا ۖ قَالَ أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا
سو دونوں چل پڑے، یہاں تک کہ جب وہ کشتی میں سوار ہوئے تو اس نے اسے پھاڑ دیا۔ کہا کیا تو نے اسے اس لیے پھاڑ دیا ہے کہ اس کے سواروں کو غرق کر دے، بلاشبہ یقیناً تو ایک بہت بڑے کام کو آیا ہے۔
(43) صحیح بخاری میں ہے کہ دونوں ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ کشتی کی تلاش میں روانہ ہوئے، ایک کشتی نظر آئی تو اس کے مالک سے بات کی اس نے خضر کو پہچان لیا اور بغیر کرایہ لیے کشتی میں سوار کرلیا، تھوڑی دیر کے بعد خضر نے کشتی کو عیب دار بنانے کے لیے اس کی دیوار میں سوراخ کردیا، موسیٰ نے کہا آپ نے تو کشتی میں سوراخ کر کے کشتی والوں کو ڈبو دینا چاہا ہے، آپ نے تو بہت بڑی غلطی کی ہے کہ کشتی کو خراب کیا، بہت سے بے گناہ کو ہلاک کردینا چاہا، اور احسان فراموشی کی ہے۔