سورة الكهف - آیت 21

وَكَذَٰلِكَ أَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيهَا إِذْ يَتَنَازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ ۖ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا ۖ رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اسی طرح ہم نے (لوگوں کو) ان پر مطلع کردیا، تاکہ وہ جان لیں کہ بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ بے شک قیامت، اس میں کوئی شک نہیں۔ جب وہ ان کے معاملے میں آپس میں جھگڑ رہے تھے تو انھوں نے کہا ان پر ایک عمارت بنا دو۔ ان کا رب ان سے زیادہ واقف ہے، وہ لوگ جو ان کے معاملے پر غالب ہوئے انھوں نے کہا ہم تو ضرور ان پر ایک مسجد بنائیں گے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(13) جب ایک طویل مدت تک سوئے رہنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ بیدار کیا، تو حالات ایسے پیدا کیے کہ شہر کے لوگوں کو ان کی تفصیلات معلوم ہوگئیں انہیں پتہ چلا کہ یہ لوگ تو تین سو نو سال تک سوئے رہنے کے بعد جاگے ہیں اور ان کے اجسام حسب سابق ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں آیا ہے، اس سے انہیں معلوم ہوا کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے کہ وہ تمام انسانوں کو قیامت برپا ہونے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا، اور یہ کہ قیامت آنے میں کوئی شبہ نہیں ہے، اس لیے کہ حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ ہر آدمی کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ سلف صالحین کی ایک جماعت نے ذکر کیا ہے کہ یہ واقعہ اس لیے پیش آیا تھا کہ اس دور کے لوگوں کے ذہنوں میں بعث بعد الموت اور قیامت کے دن میں شبہ پیدا ہوگیا تھا، چنانچہ ان نوجوانوں میں سے ایک جب شہر پہنچا اور بازار والوں نے اس کے پاس اس قدیم زمانے کا سکہ دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا اور اس کا معاملہ بادشاہ تک پہنچایا تو اس نے چھان بین شروع کردی، بالاخر ان نوجوانوں کی ساری تفصیلات معلوم ہوئیں۔ اور اس زمانے کے لوگ جس بعث بعد الموت کے منکر تھے، اس پر جب اللہ کی جانب سے دلیل قائم ہوگئی تو ان نوجوانوں کو موت آگئی، ان کے مرنے کے بعد لوگوں نے طے کیا کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور غار کا دروازہ بند کردیا جائے، شہر کے بااثر لوگوں نے کہا کہ ہم ان کی یادگار کے طور پر ان کی قبروں کے اوپر مسجد بنائیں گے اور ان کے جسموں اور ان کی اس جگہ سے برکت حاصل کرنے کے لیے اس میں نماز پڑھیں گے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ گزشتہ قوموں میں شرک باللہ اور توسل بغیر اللہ کا دروازہ اسی طرح کھلتا رہا ہے، اسی لیے نبی کریم (ﷺ) نے شدت کے ساتھ اس کی تردید فرمائی اور کہا کہ یہود و نصاری پر اللہ کی لعنت ہو، جنہوں نے اپنے انبیاء اور صالحین کی قبروں پر مسجدیں بنا دیں، اور یہ بھی فرمایا کہ جب ان کا کوئی نیک آدمی مرجاتا تھا تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے تھے اور اس میں ان کی تصویریں آویزاں کردیتے تھے، وہی لوگ قیامت کے دن بدترین لوگ ہوں گے۔ (صحیحین)