وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَت تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِّنْهُ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ ۗ مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا
اور تو سورج کو دیکھے گا جب وہ نکلتا ہے تو ان کی غار سے دائیں طرف کنارہ کرجاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بائیں طرف کو کترا جاتا ہے اور وہ اس (غار) کی کھلی جگہ میں ہیں۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے، جسے اللہ ہدایت دے سو وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے گمراہ کر دے، پھر تو اس کے لیے ہرگز کوئی رہنمائی کرنے والا دوست نہ پائے گا۔
(10) یہ آیت کریمہ بتاتی ہے کہ دھوپ صبح و شام اس غار میں داخل ہوتی تھی لیکن ان کے جسموں پر نہیں پڑتی تھی اس لیے کہ اس کا دروازہ بائیں جانب سے کھلتا تھا، جب آفتاب چڑھتا تھا تو دھوپ دائیں جانب ہوجاتی تھی اور غروب کے وقت بائیں طرف ہوجاتی تھی، اور ان کے اجسام غار کے کشادہ حصے میں آفتاب کی شعاعوں سے مامون و محفوظ تھے۔ نیز یہ آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ ان صالحین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ ایک کرامت تھی، کہ غار میں ہوا اور دھوپ پہنچتی تھی لیکن دھوپ ان کے جسموں پر نہیں پڑتی تھی تاکہ دھوپ کی تمازت ان کے جسموں کو جلا نہ دے، الغرض اللہ تعالیٰ نے انہیں اس غار میں پناہ دے کر ان کے دشمنوں سے بھی بچا لیا اور ان کے جسموں اور رنگوں کو سردی یا گرمی سے متاثر ہونے سے بھی محفوظ رکھا، یقینا ان صالحین کا یہ حال اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نشانی ہے۔ لیکن یہ اور اس طرح کی دیگر نشانیوں سے ہدایت وہی حاصل کرتا ہے جسے اللہ توفیق دیتا ہے، اور جسے وہ گمراہ کردینا چاہے اس کا کوئی یارومددگار نہیں ہوتا جو اسے سیدھی راہ پر ڈال دے۔