نَّحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُم بِالْحَقِّ ۚ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى
ہم تجھ سے ان کا واقعہ ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں، بے شک وہ چند جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے انھیں ہدایت میں زیادہ کردیا۔
(6) واقعہ اصحاب کہف کی اب امر واقع کے مطابق تفصیل بیان کی جارہی ہے، یہ نوجوان اپنی مشرک قوم کے برعکس اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لے آئے تھے، اور اللہ نے انہیں اپنے عقیدہ میں ایسی پختگی دی کہ انہوں نے اپنے دین کی حفاظت کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کی راہ اختیار کرلی اور تمام دنیاوی آرام و آسائش سے منہ موڑ کر غار میں رہنا گوارہ کیا۔ حافظ ابن کثیر نے İإِنَّهُمْ فِتْيَةٌĬ سے استنباط کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بوڑھوں کے مقابلہ میں نوجوان حق کو جلد قبول کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قریش کے اکثر بوڑھے اپنے کفر پر جمے رہے، ان میں سے بہت کم لوگوں نے اسلام قبول کیا، اور İوَزِدْنَاهُمْ هُدًىĬ اور اس معنی کی دیگر قرآنی آیتوں سے امام بخاری اور دیگر ائمہ کرام نے استدلال کیا ہے کہ ایمان میں کمی اور زیادتی ہوتی ہے۔ ان نوجوانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے دین پر قائم تھے، لیکن حافظ ابن کثیر نے اس کی تردید کی ہے، اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اگر وہ لوگ نصرانی ہوتے تو یہود مدینہ ان کی خبروں سے دلچسپی نہیں رکھتے اور کفار مکہ کو نہ سکھاتے کہ وہ ان کے بارے میں رسول اللہ (ﷺ) سے پوچھیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اہل کتاب کی کتابوں میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کے پہلے سے موجود تھا۔