أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا
یا تو نے خیال کیا کہ غار اور کتبے والے ہماری نشانیوں میں سے ایک عجیب چیز تھے؟
(4) اس آیت کریمہ سے اصحاب کہف کے واقعہ کی ابتدا ہورہی ہے، اور یہ ان تین سوالوں میں سے ایک کا جواب ہے جو مشرکین مکہ نے یہود مدینہ کے ایماء پر رسول اللہ (ﷺ) سے کیا تھا کہ اگر محمد (ﷺ) نبی ہوگا تو ان کا جواب دے سکے گا، ورنہ نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر وحی نازل فرمائی اور اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے کہ اصحاب کہف کا واقعہ اس کی سب سے بڑی نشانی نہیں ہے، اس کی تو بے شمار بڑی بڑی نشانیاں ہیں، جو باری تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے اور جو دن رات کو ایک دوسرے کے بعد لاتا رہتا ہے، اور جس نے شمس و قمر اور ستاروں کو مسخر کر رکھا ہے اس کی قدرت کے نزدیک اصحاب کہف کا واقعہ کوئی بڑی بات نہیں، وہ تو ہر چیز پر قادر ہے، وہ تو اس سے بھی عظیم ترین نشانیاں لاسکتا ہے۔