قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنفَاقِ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ قَتُورًا
کہہ دے اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو اس وقت تم خرچ ہوجانے کے ڈر سے ضرور روک لیتے اور انسان ہمیشہ سے بہت بخیل ہے۔
(64) مشرکین مکہ رسول اللہ (ﷺ) سے مطالبہ کرتے تھے کہ وہ جبل صفا کو سونے میں اور مکہ کے اردگرد کی زمینوں کو باغوں اور نہروں میں بدل دیں، اسی کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں نبی کریم (ﷺ) کی زبانی دیا ہے کہ اگر تم میرے رب کی رحمت کے تمام خزانوں کا مالک بن جاتے تو بھی تمہارا بخل دور نہ ہوتا اور اس ڈر سے خرچ نہ کرتے کہ کہیں یہ خزانے ختم نہ ہوجائیں، اس لیے کہ بخل انسان کی فطرت میں داخل ہے، جمہور کا یہ قول ہے کہ یہاں انسان سے مراد تمام انسان ہیں اور حسن بصری کا خیال ہے کہ اس سے مراد مشرکین ہیں، البتہ اس سے وہ لوگ مستثنی ہیں جن کی صفات سورۃ المعارج آیات (19) سے (34) تک میں بیان کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : بیشک انسان بڑے کچے دل والا بنایا گیا ہے جب اسے مصیبت پہنچتی ہے تو ہڑ بڑا اٹھتا ہے اور جب راحت ملتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے مگر وہ وہ نمازی جو اپنی نماز پر ہمیشگی کرنے والے ہیں اور جن کے مالوں میں مقرر حصہ ہے، مانگنے والوں کا بھی اور سوال سے بچنے والوں کا بھی اور جو انصاف کے دن پر یقین رکھتے ہیں، اور جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں، بیشک ان کے رب کا عذاب بے خوف ہونے کی چیز نہیں، اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی (حرام سے) حفاظت کرتے ہیں ہاں انکی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں جن کے وہ مالک ہیں انہیں کوئی ملامت نہیں، جو کوئی اس کے علاوہ راہ ڈھونڈھے گا تو ایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہوں گے، اور جو اپنی امانتوں کو، اپنے قول و قرار کو ہر آن ملحوظ رکھتے ہیں اور جو اپنی گواہیوں پر سیدھے اور قائم رہتے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ روزی کے خزانوں کا مالک صرف اللہ ہے اور وہ بڑا ہی جود و سخا والا ہے، اس نے جب سے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، خرچ کر رہا ہے اور اس کے دائیں ہاتھ میں جو کچھ ہے وہ ختم نہیں ہوا ہے جیسا کہ بخاری و مسلم کی ایک روایت سے ثابت ہے۔