وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا
اور وہ تجھ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمھیں علم میں سے بہت تھوڑے کے سوا نہیں دیا گیا۔
(54) بخاری و مسلم اور امام احمد وغیرہم نے ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ یہود مدینہ نے رسول اللہ (ﷺ) سے روح کے بارے میں سوال کیا تو یہ آیت نازل ہوئی، اور ابن اسحاق نے روایت کی ہے کہ یہود مدینہ نے قریش کو کہلا بھیجا کہ وہ محمد (ﷺ) سے اہل کہف، ذوالقرنین اور روح کے بارے میں پوچھیں، اگر وہ دو کے بارے میں بتائے اور تیسری چیز کے بارے میں خاموشی اختیار کرے تو وہ نبی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکہف نازل کی جس میں اصحاب کہف اور ذوالقرنین کا واقعہ ہے اور یہ آیت نازل کی جس میں روح کا تذکرہ ہے۔ روح کا اطلاق عظیم فرشتہ جبریل (علیہ السلام) اور اس پوشیدہ چیز پر ہوتا ہے جو پورے جسم انسانی میں پھیلی ہوتی ہے اور جس کے سبب انسان کا جسم زندہ رہتا ہے، یہاں یہی دوسرا معنی مراد ہے، جس کی حقیقت کسی انسان کو نہ معلوم ہوئی ہے اور نہ ہوگی، وہ ایک ایسی شے ہے جس کی حقیقت کا علم صرف اللہ کو ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے انسانو ! تمہیں تو بہت ہی معمولی سا علم دیا گیا اس لیے اس کرید میں نہ پڑو کہ روح کی حقیقت کیا ہے ؟ اس آیت کریمہ سے اس بات کی ممانعت ثابت ہوتی ہے کہ آدمی روح سے متعلق غیر ضروری اور غیر مفید بحث میں پڑے جیسا کہ بہت سے لوگوں کا ماضی میں شیوہ رہا ہے، لیکن نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا اور بات وہیں کی وہیں رہ گئی کہ روح کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے۔