أَفَأَصْفَاكُمْ رَبُّكُم بِالْبَنِينَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِنَاثًا ۚ إِنَّكُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِيمًا
پھر کیا تمھارے رب نے تمھیں بیٹوں کے ساتھ چن لیا اور خود فرشتوں میں سے بیٹیاں بنا لی ہیں؟ بے شک تم یقیناً ایک بہت بڑی بات کہہ رہے ہو۔
(27) اس آیت کریمہ میں ان مشرکین عرب کی تردید ہے جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتاتے تھے اور ان کی عبادت کرتے تھے، حالانکہ وہ تو اللہ کے بندے ہیں جنہیں اللہ نے اپنی تسبیح و تحمید اور دیگر کارہائے عالم کے لیے پیدا کیا ہے، اللہ نے فرمایا کہ کیا اس نے تمہارے لیے سب سے اچھی اولاد یعنی لڑکا پسند کیا ہے اور اپنے لیے کم تر اولاد یعنی بیٹیاں پسند کی ہیں جنہیں تم اپنے لیے گوارہ نہیں کرتے ہو، بلکہ زندہ درگور کردیتے ہو؟ یہ کتنی عقل و حکمت کے خلاف بات ہے کہ آقا اپنے غلاموں کو تو سب سے اچھی چیز دے اور اپنے لیے گھٹیا چیز پسند کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ بندوں کے منہ سے اپنے خالق و مالک کے بارے میں یہ بات بہت ہی بری ہے، کہ ایک تو اللہ کے لیے اولاد ثابت کرتے ہیں اور وہ بھی ایسی اولاد جنہیں وہ اپنے لیے پسند نہیں کرتے ہیں۔