فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ
پھر جب تم اپنے حج کے احکام پورے کرلو تو اللہ کو یاد کرو، اپنے باپ دادا کو تمھارے یاد کرنے کی طرح، بلکہ اس سے بڑھ کر یاد کرنا، پھر لوگوں میں سے کوئی تو وہ ہے جو کہتا ہے اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں دے دے اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔
287: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اعمالِ حج سے فراغت کے بعد ذکر کا حکم دیا ہے، کہ اللہ کی توفیق سے یہ عظیم عبادت پوری ہوگئی تو اس کا شکر بجا لانا چاہئے۔ اہل جاہلیت کا دستور تھا کہ مزدلفہ سے منی واپسی کے بعد جمرات کے پاس میلہ لگاتے اور اپنے آباء و اجداد کی شان میں قصیدے پڑھتے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اللہ کو یاد کرتے، اسی لیے اللہ نے مسلمانوں کے فکری دھارے کی اصلاح کی اور انہیں تعلیم دی کہ وہ اللہ کو یاد کریں، اس لیے کہ ذکر و شکر کا وہی اکیلا حقدار ہے۔ اس لیے کنکری مارنے کے بعد جب حجاج قربانی، بال منڈانے، طواف زیارت اور صفا و مروہ کی سعی سے فارغ ہو کر منی میں قیام پذیر ہوجائیں تو اللہ کے ذکر میں مشغول رہیں۔ 288: استغفار اور کثرت ذکر کی نصیحت کے بعد اللہ تعالیٰ نے دعا کی طرف توجہ دلائی، اس لیے کہ کثرت ذکر کے بعد دعا کی قبولیت کی زیادہ امید ہوتی ہے اور ان لوگوں کی مذمت کی جن کی زندگی کا مقصود اول دنیا کا حصول ہوتا ہے، اور ان کی تعریف کی جن کا مطمع نظر آخرت کی کامیابی اور جہنم کی آگ سے نجات حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ کچھ اعرابی لوگ عرفات میں اللہ سے دنیاوی فائدہ مانگتے اور آخرت کا کوئی ذکر نہیں لاتے، بعض نے کہا کہ مشرکین عرب ایسا کرتے تھے، کسی نے کہا کہ بعض مسلمان ہی ایسا کرتے تھے کہ اپنی دنیا سنورنے کی دعا کرتے، اور آخرت کو فراموش کرجاتے، انہی لوگوں کے حالات کے پیش نظر یہ آیت نازل ہوئی۔ 289: یعنی آخرت کی کامیابی کا کوئی حصہ ان کو نہیں ملے گا، الا یہ کہ وہ توبہ کریں اور اللہ انہیں معاف کردے۔