وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا
اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا کرلے اور نہ اسے کھول دے، پورا کھول دینا، ورنہ ملامت کیا ہوا، تھکا ہارا ہو کر بیٹھ رہے گا۔
(18) اس آیت کریمہ میں بخیل کو اس آدمی سے تشبیہ دی گئی ہے جس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ باندھ دیئے گئے ہوں، کہ ان ہاتھوں سے وہ نہ کسی چیز کو پکڑ سکتا ہے اور نہ ہی ان کے ذریعہ کسی کو کوئی چیز دے سکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو مخاطب کر کے مؤمنوں کو نصیحت کی ہے کہ جن لوگوں پر خرچ کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے ان پر خرچ کرنے میں بخل سے کام نہ لیں، اور نہ خرچ کرنے میں اتنی فضول خرچی سے کام لیں کہ سب کچھ لٹا دیں، بال بچوں کے لیے کچھ بھی نہ چھوڑیں اس لیے کہ بخل کی صورت میں لوگ ملامت کریں گے کہ مال رہتے ہوئے ان کی مدد نہیں کی، اور فضول خرچی کی وجہ سے سارا مال ضائع ہوجائے گا تو باقی عمر کف افسوس ملتے ہوئے گزارے گا، اور دوسروں کا دست نگر رہے گا، اور اس کی حالت اس اونٹ کی ہوگی جو راستہ چلتے چلتے تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے، آگے نہیں چل سکتا تو اس کا مالک اسے وہیں چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔