سورة الإسراء - آیت 16

وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جب ہم ارادہ کرتے ہیں کہ کسی بستی کو ہلاک کریں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں، پھر وہ اس میں حکم نہیں مانتے تو اس پر بات ثابت ہوجاتی ہے، پھر ہم اسے برباد کردیتے ہیں، بری طرح برباد کرنا۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(10) جس عذاب کا اوپر ذکر آیا ہے اسی کا سبب بیان کیا جارہا ہے اور اس طرف اشارہ ہے کہ اس سے مراد دنیاوی عذاب ہے، آیت کا معنی یہ ہے کہ جب ہم کسی قوم کو عذاب کے ذریعہ ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اس کے عیش پرستوں اور ناز و نعم میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو اپنے رسول کی زبانی طاعت وبندگی کا حکم دیتے ہیں، لیکن وہ لوگ ہمارے حکم کی مخالفت کرتے ہیں اور سرکشی اور تمرد ان کا شیوہ بن جاتا ہے، تو ان پر عذاب کا نزول واجب ہوجاتا ہے، پھر ہم انہیں یکسر تباہ و برباد کردیتے ہیں، جیسا کہ بیت المقدس والوں کے ساتھ ہوا کہ جب یہود نے اللہ کے دین کو پس پشت ڈال دیا تو ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کردیا۔ آیت کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جب ہم کسی قوم کو عذاب کے ذریعہ ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اس میں فاسقوں اور فاجروں کی تعداد بڑھا دیتے ہیں جو کثرت کے ساتھ فسق و فجور کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اگرچہ اللہ کا حکم تمام لوگوں کو شامل ہوتا ہے لیکن یہاں عیش کوشوں کا ہی ذکر اس لیے آیا ہے کہ دنیا میں شر و فساد پھیلانے والے درحقیقت یہی لوگ ہوتے ہیں پھر دوسرے لوگ ان کی پیروی کرنے لگتے ہیں۔