ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ عَمِلُوا السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
پھر بے شک تیرا رب ان لوگوں کے لیے جنھوں نے جہالت سے برے عمل کیے، پھر اس کے بعد توبہ کرلی اور اصلاح کرلی، بلاشبہ تیرا رب اس کے بعد یقیناً بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
(74) اس سورت کی اب تک جتنی آیتیں گزری ہیں ان سب کا عام موضوع شرک کی تردید اور ان کافروں کی زجر و توبیخ رہا ہے جو نبی کریم (ﷺ) کی نبوت اور دوبارہ زندہ کیے جانے کا انکار کرتے تھے اسی لیے اب جبکہ یہ سورت ختم ہونے والی ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے حال پر رحم کرتے ہوئے توبہ کا دروازہ کھول دیا کہ جو لوگ اب تک نادانی اور جہالت کی وجہ سے شرک کا ارتکاب کرتے رہے ہیں اور وحی و رسالت اور بعث بعد الموت کا انکار کرتے رہے ہیں وہ اگر اپنے گناہوں سے توبہ کریں، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، رسول اللہ (ﷺ) کی رسالت اور دوبارہ زندہ کیے جانے پر ایمان لائیں اور اپنی نیت اور اپنے اعمال و احوال کی اصلاح کریں تو اللہ تعالیٰ ان کے حال پر رحم کرے گا اور ان کے گناہوں کو معاف کردے گا۔ گویا قرآن کریم کی زبان میں کفار مکہ کے لیے یہ ایک بہت بڑی خوشخبری تھی۔