وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَٰذَا حَلَالٌ وَهَٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ
اور اس کی وجہ سے جو تمھاری زبانیں جھوٹ کہتی ہیں، مت کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے، تاکہ اللہ پر جھوٹ باندھو۔ بے شک جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پاتے۔
(72) کسی انسان کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی طرف سے کسی چیز کو حلال اور کسی کو حرام بنا لے، ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی ہے، اس نے جس چیز کو چاہا حلال بنایا اور جسے چاہا حرام بنایا، لیکن مشرکین عرب کا دستور تھا کہ وہ بعض جانوروں کو اپنی طرف سے حرام قرار دیتے تھے۔ جیسے بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حامی وغیرہ جانور، جنہیں وہ اپنے بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے اور ان کا گوشت کھانا حرام سمجھتے تھے، انہی مشرکین کو خطاب کر کے کہا گیا ہے کہ اللہ کے بارے میں جھوٹ نہ بولا کرو اور اپنی طرف سے چیزوں اور جانوروں پر حلال اور حرام کا حکم نہ لگایا کرو، یہ اللہ تعالیٰ کے خلاف افترا پردازی ہوگی کہ اس نے تو ایک چیز کو حلال بنایا اور تم اسے حرام کہتے ہو اور جو اللہ کے بارے میں جھوٹ بولے گا وہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا، اور اگر ایسے لوگ دنیا میں کھا پی رہے ہیں اور ظاہری طور پر ٹھاٹھ کر رہے ہیں تو اس سے کسی کو دھوکہ نہیں ہونا چاہیے، کہ وہ بڑے کامیاب ہیں۔ یہ دنیا تو بالکل عارضی چیز ہے مرنے کے بعد دردناک عذاب ان کا انتظار کر رہا ہے، ابن ابی حاتم نے ابو نضرہ کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے جب سے سورۃ النحل کی یہ آیت پڑھی ہے فتوی دینے سے ڈرتا ہوں۔ صاحب فتح البیان نے ان کا یہ قول نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ انہوں نے سچ کہا ہے، اللہ ان پر رحم کرے، اس لیے کہ یہ آیت کریمہ ہر اس مفتی کو شامل ہے جو اللہ کی کتاب یا رسول اللہ (ﷺ) کی سنت کے خلاف فتوی دے، جیسا کہ بہت سے وہ لوگ کرتے ہیں جو کسی امام کی رائے کو رسول اللہ (ﷺ) کی حدیث پر ترجیح دیتے ہیں یا وہ لوگ جو قرآن و سنت کے علم سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔