مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
جو شخص اللہ کے ساتھ کفر کرے اپنے ایمان کے بعد، سوائے اس کے جسے مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو اور لیکن جو کفر کے لیے سینہ کھول دے تو ان لوگوں پر اللہ کا بڑا غضب ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔
(67) چونکہ اوپر کی آیتوں میں اسلام پر ثابت قدم رہنے والوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے، اسی لیے اب ان لوگوں کے لیے وعید شدید بتائی جارہی ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد کسی عارضی تکلیف و مصیبت کی وجہ سے دوبارہ کفر کی طرف لوٹ جاتے ہیں، اس حکم سے ان لوگوں کو مستثنی کردیا گیا ہے جو ظلم و ستم سے تنگ آکر جان بچانے کے لیے کفر کا کوئی کلمہ اپنی زبان پر لے آتے ہیں، لیکن دل سے کفر کو قبول نہیں کرتے ہیں، جو لوگ دل سے دوبارہ کفر کو قبول کرلیتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ ان پر اللہ کا غضب ہوگا، اور قیامت کے دن بڑے عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے، اس لیے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی، اور کفر کی راہ اختیار کرلینے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت بھی نہیں دے گا، اور ان کے دلوں، کانوں اور آنکھوں پر مہر لگا دے گا، اور انہیں غفلت میں مبتلا کردے گا اور ان پر خیر و صلاح کے سارے دروازے بند کردے گا۔ اور معلوم ہوا کہ دنیا میں مؤمن کی حیثیت تاجر کی ہے جو اپنی نیکیوں کے ذریعہ آخرت کی سعادت خریدتا ہے، لیکن جب کسی انسان میں محرومی کے مذکورہ بالا تمام اسباب جمع ہوجائیں گے تو اسے خسارے کے سوا کچھ نہیں ملے گا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آیت (109) میں فرمایا کہ آخرت میں درحقیقت یہی لوگ خسارہ پانے والے ہوں گے۔ حدیث کی متعدد کتابوں میں ابن عباس سے مروی ہے کہ یہ آیت عمار بن یاسر کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جب مشرکین مکہ نے انہیں عذاب دے دے کر مجبور کردیا تھا کہ وہ نبی کریم (ﷺ) کو برا کہیں اور ان کے معبودوں کی تعریف کریں جب انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) سے اپنا واقعہ بیان کیا، تو آپ نے پوچھا کہ تم اپنے دل کو کیسا پاتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں اپنے ایمان سے پورے طور پر مطمئن ہوں، تو آپ نے فرمایا کہ اگر دوبارہ تمہارے ساتھ ویسا برتاؤ کریں تو تم دوبارہ ویسے ہی کلمات استعمال کرو۔ اسی لیے قرطبی نے لکھا ہے کہ مفسرین اور اہل علم کا اتفاق ہے کہ جو شخص اپنی جان بچانے کے لیے کلمہ کفر زبان پر لے آئے گا اس کو کوئی گناہ نہیں ہوگا، اور ابن کثیر نے لکھا ہے کہ جو شخص کفر کرنے پر مجبور کیا جائے گا اس کے لیے ظاہری طور پر کفر کا اظہار کرنا جائز ہوگا، اور یہ بھی جائز ہے کہ انکار کردے، جیسا کہ بلال نے کیا تھا کہ ہر تکلیف برداشت کرتے رہے اور احد احد کا نعرہ لگاتے رہے، بلال کہتے ہیں کہ اگر مجھے کوئی اور کلمہ معلوم ہوتا جو کافروں کو زیادہ غصہ دلاتا تو میں وہ ضرور کہتا۔