وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللَّهِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
اور جن لوگوں نے اللہ کی خاطر وطن چھوڑا، اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا، بلاشبہ ہم انھیں دنیا میں ضرور اچھا ٹھکا نادیں گے اور یقیناً آخرت کا اجر سب سے بڑا ہے۔ کاش! وہ جانتے ہوتے۔
(25) اس آیت کریمہ میں اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کا دنیاوی اور اخروی اجر بیان کیا گیا ہے، اس آیت کے شان نزول کے بارے میں دو اقوال ہیں، ایک قول تو یہ ہے کہ آیت میں مذکور مہاجرین سے مراد مکہ کے وہ مسلمان ہیں جو اپنی قوم کی ایذا رسانی سے عاجز آکر اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے نبی کریم (ﷺ) کے حکم سے حبشہ چلے گئے تھے، ان کی تعداد چھوٹے بچوں کے علاوہ تراسی (83) تھی، اسلام آنے کے بعد اللہ کی راہ میں مسلمانوں کی یہ پہلی ہجرت تھی، اس قول کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ یہ سورت مکی ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ ان سے مراد مہاجرین مدینہ ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہجرت سے پہلے ہی اجر عظیم کی خوشخبری دے دی تھی، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت مدنی ہے جسے مکی سورت میں جگہ دی گئی ہے، اللہ تعالیٰ نے ان مہاجرین کو دنیا میں عزت و منزلت، عمدہ روزی اور فتح و نصرت کی خوشخبری دی ہے اور اس کے بعد کہا ہے کہ آخرت میں انہیں جو اجر ملے گا وہ تو بڑا ہی عظیم ہوگا، جس کا تصور بھی انسان اس دنیا میں نہیں کرسکتا ہے، اس آیت میں ان مسلمانان مکہ کو ہجرت کی ترغیب بھی دی گئی ہے جو کسی دنیاوی وجہ سے ہجرت کرنے میں دیر کر رہے تھے، اور جس اجر کا اوپر ذکر ہوا ہے وہ مہاجرین کو اس لئے ملے گا کہ انہوں نے مشرکین مکہ کی ایذا رسانی پر صبر کیا اور اللہ پھر بھروسہ کرتے ہوئے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کر گئے۔ عمر بن خطاب سے مروی ہے کہ جب وہ کسی مہاجر مسلمان کو اس کا حصہ دیتے تو کہتے، اپنا حصہ لے لو، اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے، یہ وہ مال ہے جس کا اللہ نے تم سے دنیا میں وعدہ کیا تھا، اور قیامت کے دن تمہیں جو ملے گا وہ تو اس سے کہیں زیادہ اچھا ہوگا۔