وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ ۚ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو، پھر ان میں سے کچھ وہ تھے جنھیں اللہ نے ہدایت دی اور ان میں سے کچھ وہ تھے جن پر گمراہی ثابت ہوگئی۔ پس زمین میں چلو پھرو، پھر دیکھو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں آیت (36) میں بیان فرمایا ہے کہ ہم نے ہر قوم کے لیے ایک رسول بھیجا جس نے انہیں اس بات کی تعلیم دی کہ اللہ کی عبادت کرو اور شیطان اور بتوں کی عبادت سے دور رہو، اس لیے کسی مشرک کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم غیروں کی عبادت نہ کرتے، اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو خیر و شر اور جنت و جہنم کے دونوں راستے بتا دیئے، خیر کی راہ پر چلنے کا حکم دیا اور شر کی راہ سے منع فرمایا، بلکہ اس سے زیادہ یہ کیا کہ مشرکوں کو دنیا میں ان کے شرک کی سزا دی، تاکہ انہیں معلوم ہو کہ اللہ ان کے شرکیہ اعمال سے راضی نہیں ہے، آیت (36) کے آخر میں یہی بات کہی گئی ہے، خیر و شر کی اس وضاحت و صراحت کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب اور مشیت کونی کے مابق جسے چاہا خیر کی توفیق دی اور جسے چاہا بھٹکتا چھوڑ دیا۔