أَتَىٰ أَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اللہ کا حکم آگیا، سو اس کے جلد آنے کا مطالبہ نہ کرو، وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں۔
(1) قرآن کریم کی مختلف آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ نبی کریم (ﷺ) کے وعدہ کے مطابق قیامت آجانے یا انہیں ہلاک کیے جانے کی بڑی جلدی مچاتے تھے، اور اس سے مقصود آپ کا مذاق اڑانا اور قیامت کی تکذیب کرنی ہوتی تھی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانفال کی آیت (32) میں نضر بن حارث کا قول نقل کیا ہے : چنانچہ چند ہی سال کے بعد وہ میدان بدر میں مارا گیا اور جہنم رسید ہوا، اس آیت کریمہ میں ایسے ہی کافروں سے کہا گیا ہے کہ تم سے جس قیامت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کا وقوع پذیر ہونا ایسا امر یقینی ہے کہ گویا وہ آچکی، اس لیے تمہیں اس کے جلد آجانے کی تمنا نہیں کرنی چاہیے، جب وہ آجائے گی تو اللہ کا دردناک عذاب تمہیں اپنے گھیرے میں لے لے گا اور تم ہرگز اس سے جان بر نہ ہوسکو گے۔ آیت کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے بتوں اور جھوٹے معبودوں سے اپنی برات اور برتری بیان کی ہے، جن کی محبت میں پڑ کر وہ لوگ روز قیامت اللہ کے سامنے حاضر ہونے کی تکذیب کرتے تھے۔