وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ
اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا بے شک میں ایک بشر ایک بجنے والی مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں، جو بدبودار، سیاہ کیچڑ سے ہوگی۔
(17) آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ان کی تخلیق کے وقت جو عزت بخشی اسی کا ذکر ہورہا ہے، کہ فرشتوں کو انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا، تو سب ان کی تعظیم کے لیے سجدہ میں گر گئے، لیکن ابلیس نے کفر و عناد اور حسد و استکبار کی وجہ سے اس حکم سے سرتابی کی، اور اللہ سے کہا کہ میں آدم کو سجدہ نہیں کروں گا جسے تو نے سڑی ہوئی مٹی کے گارے سے پیدا کیا ہے، جبکہ مجھے آگ سے پیدا کیا ہے جو مٹی سے برتر و بالا ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ لفظ صلصال کو بار بار دہرانے سے مقصود حضرت انس کو اس کی اصل کی یاد دہانی کراتے رہنا ہے، تاکہ کبر و نخوت میں پڑ کر تمرد و سرکشی کی زندگی نہ اختیار کرے۔